” گڈ تمہارے اور میرے درمیان یہ دوسری کامن چیز ہے۔ پھر توتمہیں شینل 5کے بجائے212 Men دینا چاہئے تھا۔ ”
اس نے ایک دوسرے پرفیوم کا نام لیتے ہوئے کہا تھا۔
”نہیں مجھے Eternityاور Joy زیادہ پسند ہیں۔ ”
علیزہ نے کچھ جھجکتے ہوئے کہا۔
”اور مجھے Baby Dollاور Ripple”
عمر نے اپنی پسند بتائی تھی ۔ علیزہ کو یک دم اس میں دلچسپی پیدا ہو گئی تھی۔
”عمر اتنا برا نہیں ہے جتنا میں سمجھ رہی تھی۔ وہ اچھا ہے۔ ”
اس نے فوراً نتیجہ اخذ کر لیا تھا۔
”کیا میں یہ پرفیوم دیکھ لوں ؟”
اس نے ہاتھ سے ڈریسنگ کی طرف اشارہ کیا تھا۔
”Sure why not?” (ہاں ، کیوں نہیں۔)
عمر نے دوستانہ انداز میں کہا اور ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے سے ہٹ گیا تھا۔
وہ بڑے متجسس انداز میں ڈریسنگ ٹیبل کی طرف بڑھی۔ پرفیومز کا انبار دیکھ کر اس کی سمجھ میں ہی نہیں آ رہا تھا کہ وہ کونسا پرفیوم پہلے اٹھا کر دیکھے۔ اس نے سب سے پہلے سب سے چھوٹی شیشی اٹھائی۔ وہ White Linen تھا۔ وہ باری باری ہر شیشی اٹھا کر دیکھتی رہی۔ کچھ پر فیومز بالکل استعمال نہیں کئے گئے تھے۔
”میں ہر ماہ کچھ اور خریدوں یا نہ خریدوں لیکن پرفیومز ضرورخریدتا ہوں۔ ان کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ ”
وہ پاس کھڑا بتا رہا تھا۔
”لیکن آپ پرفیومز زیادہ استعمال تو نہیں کرتے۔ ”
علیزہ نے ایک پرفیوم ہاتھ میں لیتے ہوئے پوچھا تھا۔
”دن میں نہیں لگاتا، رات میں لگاتا ہوں۔ ”
علیزہ نے اس کے جواب پر کچھ حیرانی سے اسے دیکھا تھا۔
”سونے سے پہلے۔ ”
وہ اس کی حیرانی کی وجہ جیسے جان گیا۔
”کیوں؟”
وہ کچھ اور ہی الجھی تھی۔
”دن کے وقت آپ اتنے بہت سے کاموں میں مصروف ہوتے ہیں کہ پرفیوم انجوائے نہیں کر سکتے۔ ہمارا دھیان دوسری چیزوں کی طرف ہوتا ہے۔ ہاں رات کو آپ کسی بھی پرفیوم کی مہک کو بہت اچھی طرح انجوائے کر سکتے ہیں۔ کیونکہ آپ کسی بھی مہک کو اچھی طرح محسوس کر سکتے ہیں۔اس وقت senses بہت شارپ ہوتی ہیں۔ ”
علیزہ نے بہت توجہ سے اس کی فلاسفی سنی اب وہ اسے خود کچھ پرفیوم دکھا رہا تھا۔ پھر اس نے ایک چھوٹی سی بوتل اٹھائی تھی۔ اس کی طرف وہ بوتل بڑھاتے ہوئے اس نے کہا تھا” یہ Enigmaہے۔ اس ٹیبل پر سب سے قیمتی چیز Extracted Essence ہے۔ یہ پاپا نے گفٹ کیا تھا، ورنہ میں اسے افورڈ نہیں کر سکتا۔ بہت احتیاط سے میں اسے استعمال کرتا ہوں تاکہ یہ جلدی ختم نہ ہو۔ ”
علیزہ کی توجہ اس شیشی پر مرکوز تھی۔ اسے ہاتھ میں لے کر اس نے خوشبو کو محسوس کرنے کی کوشش کی تھی۔ سانس اندر کھینچتے ہی اس نے اپنے اندر ایک عجیب سی تازگی محسوس کی۔
”Exotic” علیزہ نے بے اختیار کہا تھا۔