Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

اس کے ریمارکس پر عمر کی آنکھوں کی چمک بڑھ گئی تھی۔ علیزہ نے ایک دو بار سونگھنے کے بعد اس چھوٹی سی شیشی بند کرنے کی کوشش کی تھی لیکن وہ نہیں جانتی کیا ہوا تھا مگر شیشی ایک دم اس کے ہاتھوں سے نکل گئی تھی، اس کے ہاتھ میں صرف ڈھکن رہ گیا تھا۔ ایک ثانیے میں شیشی ڈریسنگ ٹیبل پہ گری اور پھر وہاں سے اچھل کر نیچے کارپٹ پرگری۔ علیزہ نے بے اختیار اسے پکرنے کی کوشش کی تھی۔ مگر اس کی کوشش کامیاب نہیں ہوئی تھی۔ کمرہ یک دم تیز خوشبو سے بھر گیا۔ علیزہ نے مایوسی سے شیشی اٹھالی تھی ۔ اس میں اب صرف چند قطرے باقی تھے۔ اس نے شرمندگی سے عمر کو سر اٹھا کر دیکھا۔
”پتہ نہیں کیسے…۔” اس کی سمجھ میں نہیں آیا ، وہ بات کیسے مکمل کرے۔
وہ چند لمحے خاموشی سے اسے چہرہ دیکھتا رہا ، اور پھر اس نے سکون سے ہاتھ بڑھا کر اس سے شیشی اور ڈھکن لے لیا تھا۔
”it’s alright.”
” یہ قیمتی تھا مگر میرا فیورٹ نہیں۔ ”
علیزہ اس کی اس بات پر ایک دم اضطراب کا شکا ر ہو گئی تھی۔
”I am sorry، میری وجہ سے۔۔۔۔۔!”




اس نے کچھ کہنے کی کوشش کی تھی مگر عمر کی حرکت نے اسے ہکا بکا کر دیا تھا۔ اس نے ڈریسنگ ٹیبل سے ایک اور پرفیوم اٹھایا اور دیوار پرکھینچ مارا۔ شیشی ٹوٹتے ہی کمرہ ایک بار پھر تیز خوشبو سے بھر گیاتھا۔
”چیزیں ٹوٹنے کے لئے ہی ہوتی ہیں ،اور بعض دفعہ تو چیزیں توڑنے میں مزہ آتا ہے۔ ہے نا علیزہ! آؤ ایک ایک پرفیوم اور توڑیں۔ ”
اس نے پرسکون انداز میں کہتے ہوئے ڈریسنگ ٹیبل سے دو پرفیوم اٹھا لئے اور ایک اس کی طرف بڑھا دیا۔ وہ جیسے کرنٹ کھاکر پیچھے ہٹی تھی۔ اس کا چہرہ سرخ ہو گیا تھا۔
”آپ بہت عجیب ہیں۔ ”
اس نے کچھ بے چین ہو کر عمر سے کہا تھا۔
”اس کو میں کیا سمجھوں، complimentیا Comment (تعریف یا تبصرہ)
عمر کا اطمینان برقرار تھا۔ وہ یک دم بہت الجھ گئی تھی۔ عمر نے دونوں پرفیوم ایک بار پھر ڈریسنگ ٹیبل پر رکھ دئیے، اور پھر ایک اور پرفیوم اٹھاکر اس کی طرف بڑھایا Ecstacy یہ میں تب لگاتا ہوں جب خود کو بہت اکیلا محسوس کرتا ہوں۔ ”
اس نے سلسلہ وہیں سے جوڑنے کی کوشش کی تھی ، جہاں سے ٹوٹا تھا۔ علیزہ نے ہاتھ نہیں بڑھایا۔ وہ اب اس کمرے سے بھاگ جانا چاہتی تھی۔ وہاں اس کی ساری دلچسپی یک دم ختم ہو گئی تھی۔
”یہ پرفیوم نہیں دیکھنا چاہتیں؟”




عمر نے بڑے دوستانہ انداز میں پوچھا۔ علیزہ نے نفی میں سر ہلا دیا۔ عمر نے اس کی آنکھوں میں ابھرتی ہوئی نمی کو دیکھ لیا تھا، اور کمال مہارت سے نظر انداز بھی کر دیا تھا۔Chanel 5 کی بوتل اٹھا کر اس نے ڈھکن اتارا تھا اور پھر بڑے آرام سے علیزہ کے بالوں پر اس نے اسپرے کرنا شروع کر دیا تھا۔ وہ بے اختیار ایک قدم پیچھے ہٹی تھی۔ اسے اپنی گردن اوربالوں پر نمی محسوس ہوئی۔
”یہ پرفیوم دنیا کی سب سے اچھی اور precious (مکمل) لڑکیوں کے لئے ہو تا ہے، اور علیزہ میرا خیال ہے ،تم ان لڑکیوں میں شامل ہو۔”
اس نے سائفن کو پریس کرنا چھوڑ دیا۔ ڈھکن بند کرتے ہوئے اس نے ایک بار پھر پرفیوم ٹیبل پر رکھ دیا۔ علیزہ کی سمجھ میں ہی نہیں آیا وہ کس قسم کا رد عمل ظاہر کرے ، عمر بہت عجیب قسم کا تھا۔ اس نے chanel5اٹھا کر باہر نکلنا چاہا تھا۔
”اب تو تم ناراض نہیں ہو نا؟”
علیزہ نے اپنے پیچھے عمر کی آواز سنی تھی۔ اس نے مڑ کر عمر کودیکھا تھا۔ وہ وہیں ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑا مسکرا رہا تھا۔
علیزہ نے کچھ کہنے کی بجائے صرف سر ہلا دیا۔ عمر کی مسکراہٹ کی دلکشی میں اضافہ ہو گیا تھا۔
“So Aleezah we are friends, and true friends are friends for ever.”
(تو علیزہ ہم دوست ہیں اور سچے دوست ہمیشہ دوست رہتے ہیں۔)
علیزہ نے اسے کہتے ہوئے سنا تھا۔ اس کے چہرے پر بھی ایک مسکراہٹ نمودار ہو گئی تھی۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!