باب 2
وہ کار کا دروازہ کھول رہی تھی جب اس نے لاؤنج کا دروازہ کھول کر نانوکو باہر آتے دیکھا۔ شاید وہ کار کا ہارن سن کر باہر آئی تھیں۔ انہوں نے اسے دیکھ کر دور سے ہی بازو پھیلا دئیے۔ وہ مسکراتی ہوئی ان کے پاس جا کر لپٹ گئی۔
”اس بار میں نے تمہیں بہت مس کیا۔ ”
انہوں نے اس کے گال چومتے ہوئے کہاتھا۔
”میں نے بھی آپ لوگوں کو بہت مس کیانانو!”
ان کے ساتھ اندر لاؤنج کی طرف جاتے ہوئے اس نے کہاتھا۔
”میں جانتی ہوں۔ ”
انہوں نے بڑے پیار سے ساتھ چلتے ہوئے اسے اپنے کندھے سے لگا یا۔
”کیسا رہا تمہارا قیام ،انجوائے کیا؟”
”ہاں بہت انجوائے کیا۔ ”
”ثمینہ کیسی ہے ؟ پاکستان کب آ رہی ہے؟”
”ممی ٹھیک ہیں ابھی پاکستان آنے کا کوئی پروگرام نہیں ہے۔ شاید اگلے سال آئیں۔ ”
لاؤنج میں آکر اپنا بیگ صوفہ پر رکھتے ہوئے اس نے کہا۔
”چار سال ہو گئے ہیں اسے وہاں گئے ابھی بھی اس کا دل نہیں چاہ رہا تھا آنے کو۔ ”
اس نے نانو کو بڑ بڑاتے ہوئے سنا تھا۔ وہ کچھ دیر ان کاچہرہ دیکھتی رہی۔
”وہ لوگ آسٹریلیا سے امریکہ شفٹ ہونے کا سوچ رہے ہیں۔ انکل کا کا نٹریکٹ ختم ہو رہا ہے اس سال۔ امریکہ کی کسی کمپنی کی آفر پر غور کر رہے ہیں۔ ممی کہہ رہی تھیں کہ اگلے سال اگر امریکہ سیٹل ہونے کا ارادہ کر لیا تو وہاں جانے سے پہلے پاکستان کا ایک چکر لگا کر جائیں گی۔ ”
اس نے جیسے نانو کو تسلی دینے کی کوشش کی تھی۔
”تمہارے باقی بہن بھائی کیسے ہیں ؟”
نانو نے جیسے اس کا چہرہ پڑھنے کی کوشش کی۔
”بہت اچھے ہیں اب تو بہت بڑے ہو گئے ہیں۔ میں تصویریں لے کر آئی ہوں۔ آپ دیکھ لیجئے گا۔ ”
اس نے نظریں چراتے ہوئے جھک کر اپنے جاگرز کھولنے شروع کر دئیے تھے۔ نانو خاموشی سے اس کا چہرہ دیکھتی رہی تھیں۔
”تم پہلے سے کمزور ہو گئی ہو۔ ”
”ہاں شاید ، میں کچھ دن بیمار رہی تھی وہاں۔ پانی سوٹ نہیں کر رہا تھا۔ ”
ایک ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اس نے نانو کو بتایا تھا۔
”بیمار ہو گئی تھیں مگر تم نے مجھے تو نہیں بتایا۔ ثمینہ نے بھی فون پر ذکر نہیں کیا ۔ ”
نانو اٹھ کر تشویش بھرے انداز میں اس کے پاس آکر بیٹھ گئی تھیں۔
”میں نے منع کر دیا تھا۔ آپ خواہ مخواہ پریشان ہو جاتیں ،ویسے بھی زیادہ سیریس بات نہیں تھی۔ ”
اس نے لاپروائی سے کہا تھا۔
”پھر بھی تمہیں بتانا تو چاہیے تھا، اس طرح…؟”
”نانو ! پلیز میں ٹھیک ہوں۔ آپ خود دیکھ لیں کیا اب بیمارلگ رہی ہوں؟ ”
اس نے بات ٹالنے کی کوشش کر تے ہوئے کہا۔
”کرسٹی کہاں ہے۔ اسے یک دم جیسے یاد آ یاتھا۔
”سیڑھیوں کے نیچے سو رہی تھی۔ میں نے تم سے چائے کا بھی نہیں پوچھا ،میں ذرا تمہارے کھانے کے لئے کچھ کہہ کر آ تی ہوں۔ ”