Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

نانا نے اس سے کہا تھا وہ مسکراتے ہوئے ان کے پاس صوفہ پر بیٹھ گئی تھی، اور اسی وقت اس کی نظر دورکونے میں رکھے ہوئے صوفے پر بیٹھے شخص پر پڑی تھی۔ جو مسکراتے ہوئے بڑی دلچسپی سے اسے دیکھ رہا تھا۔ اس کے متوجہ ہونے پر اس کی مسکراہٹ گہری ہو گئی تھی۔ ایک لمبے عرصے کے بعد دیکھنے کے باوجود علیزہ کو اسے پہچاننے میں دیر نہیں لگی تھی۔ پانچ سال پہلے اس نے جب عمر کو دیکھا تو وہ خاصا دبلا پتلا تھا۔ مگر اس وقت وہ ایک لمبے چوڑے وجیہہ سراپے کا مالک تھا۔ وہ اس سے آٹھ سال بڑ ا تھا۔ مگر اپنی قد و قامت کے لحاظ سے وہ اپنی عمر سے بڑا نظر آ رہا تھا۔ وہ بے اختیار کچھ جھجکی۔ اس کی سمجھ میں ہی نہیں آیا کہ وہ اسے کیسے مخاطب کرے ، گلا صاف کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اس نے کہا۔
)”Hello! How are you?” ہیلو! آپ کیسے ہیں؟)
عمر نے ہلکے سے سر کو نیچے کیا تھا۔
”Oh! I am fine.” (میں ٹھیک ہوں)۔
” It means you have recognized me.” ”Am I right Aleezah?”
اس نے اس طرح اس کی بات کا جواب دیا تھا جیسے وہ اس کا بہت گہرا دوست ہو۔
”Yes! Nano told me about you.” ”She was….!”
وہ عمر سے بات کر رہی تھی جب نانو نے اسے آ واز دی تھی۔
”علیزہ! شہلا کا فون ہے بات کر لو۔ ”
اس نے چونک کر نانو کو دیکھا تھا،ان کے ہاتھ میں کارڈ لیس تھا۔
”Excuse me!”




وہ اپنی بات ادھوری چھوڑ کر نانو کے ہاتھ سے کارڈ لیس لے کر ڈائننگ کی طرف چلی گئی تھی۔ شہلا اس کی دوست تھی اور وہ جانتی تھی کہ اب، آدھ گھنٹے سے پہلے وہ فارغ نہیں ہوپائے گی۔ شہلا کو لمبی کالز کرنے کی عادت تھی اور آج تو ویسے بھی ایک ماہ کے بعد اس سے گفتگو ہو رہی تھی۔ وہ کافی دیر تک فون پر اس سے باتیں کرتی رہی ، اور جب فون بند کر کے واپس لاؤنج میں آئی تو عمر وہا ں نہیں تھا۔ وہ نانو اور نانا کے ساتھ باتیں کرتی رہی، اور ان ہی سے اسے پتہ چلا کہ وہ کسی دوست کے ساتھ باہر گیا ہوا ہے۔ کھانا کھانے کے بعد وہ دیر تک نانا کے ساتھ بیٹھی رہی تھی۔ پھر اٹھ کر اپنے کمرے میں آگئی عمر تب تک واپس نہیں آیا تھا۔
صبح وہ دیر سے اٹھی تھی جب وہ ناشتہ کے لئے آئی تو ساڑھے دس بج رہے تھے۔ خانساماں نے اسے بتایا تھا کہ نانو باہر گئی ہوئی ہیں۔ نانا تو پہلے ہی اس وقت کلب میں ہوتے تھے۔ وہ ناشتہ کر رہی تھی جب عمر بھی وہاں آگیا۔ ہیلو، ہائے کے بعد وہ بڑی بے تکلفی سے اس کے سامنے ہی چیئر کھینچ کر بیٹھ گیا تھا، اور خود بھی ناشتہ کرنے لگا۔ ساتھ ساتھ وہ اس سے باتیں کر رہا تھا ، اس کی مصروفیات کے بارے میں پوچھ رہا تھا۔ آسٹریلیا میں اس کی سرگرمیوں کے بارے میں پوچھ رہا تھا۔ علیزہ نے نوٹ کیا وہ پہلے کی نسبت بہت خوش مزاج ہو گیا تھا۔ پہلے کی طرح ریزرو سا نہیں تھا۔ کافی دیر تک انگلش میں دونوں میں گفتگو جاری رہی ، پھر خانساماں اس کے لئے جوس لے کر آگیا تھا۔ پہلی با ر عمر نے بڑی صاف اردو میں اس سے کہا تھا۔
”مجھے ایک پیالے میں دہی لا دیں مگر پہلے دیکھ لیں کہ کھٹا نہ ہو ، اور کل میرے لئے پورج بنائیں، انڈہ فرائی مت کریں ، ابال کر دے دیں۔ ”
اس نے خانساماں کو ہدایات دیں تھیں اور جوس پینے لگا تھا۔
وہ کچھ ہونق سی ہو کر اسے دیکھنے لگی۔ وہ اس کی حیرانی بھانپ گیا تھا۔ گلاس ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا۔
)”What happened?” کیا ہوا؟(
”آپ تو اردو بول سکتے ہیں!”
اس نے قدرے سٹپٹا کر کہا۔
”ہاں تو بول سکتا ہوں، اس میں حیرانی والی بات کیاہے؟”
اس نے پہلی بار اس کے جملے کا جواب اردو میں ہی دیا تھا۔
”میں سوچ رہی تھی کہ شاید آپ۔۔۔۔۔!”



وہ کچھ کھسیانی ہو گئی تھی۔
”یہ کیوں سوچا تم نے، باہر رہنے کا مطلب یہ تو نہیں کہ بندے کو اپنی زبان بھی نہ آتی ہو گی۔ ”
”پہلے جب بھی آپ آیا کرتے تھے تو کبھی بھی اردو بولتے ہوئے نہیں دیکھا تھا آپ کو،اس لئے میں نے سوچا ۔۔۔۔”
اس نے وضاحت کرنے کی کوشش کی تھی عمر نے مسکراتے ہوئے اس کی بات کاٹ دی۔
”پہلے تم سے بھی اتنی لمبی چوڑی باتیں کرنے کا موقع نہیں ملا۔ ویسے بھی چھوٹا تھا تب میں۔ ”
اس نے عمر کا چہرہ دیکھا تھا ،وہ خاصا محظوظ نظر آ رہا تھا۔
”پچھلی دفعہ جب میں نے تمہیں دیکھا تھا تو تم بہت چھوٹی تھیں۔ میرا خیال ہے گیارہ ، بارہ سال کی تھیں اور اب تو……!”
”But I must admit you are prettier now!” (پہلے سے بہت زیادہ خوبصورت ہو گئی ہو)۔
علیزہ کے گال سرخ ہو گئے، اس نے سر جھکا لیا۔ عمر جہانگیر اسے بہت عجیب لگا تھا اسے یہ بے باکی کچھ زیادہ پسند نہیں آئی تھی۔
“میں دوبارہ کبھی اکیلے اس کے پاس نہیں بیٹھوں گی”، اس نے ٹوسٹ کھاتے ہوئے سوچاتھا۔ وہ ناشتہ ختم کرتے ہی اٹھ کر واپس اپنے کمرے میں چلا گیا تھا۔ وہ کرسٹی کو لے کر لاؤنج میں ہی بیٹھ گئی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!