Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

عمر ناشتہ دیر سے کیا کرتا تھا اور پھر لنچ نہیں کرتا تھا۔ شام کی چائے بھی وہ اپنے کمرے میں ہی پیتا تھا۔ البتہ رات کا کھانا سب کے ساتھ ہی کھاتا تھا۔ اس دن کے بعد وہ اس سے بہت پہلے ہی ناشتہ کر لیا کرتی تھی۔ اسے آہستہ آہستہ احساس ہونے لگا تھا کہ عمر جہانگیر کے گھر میں آنے کے بعد بہت کچھ بدل چکا تھا۔ اس کے بہت کم گھر والوں کے پاس موجود رہنے کے باوجود گھر میں بہت کچھ اس کی مرضی اور پسند سے ہور رہا تھا۔ نانا اور نانو کی زیادہ تر گفتگو اسی کے بارے میں ہوتی۔ پہلے کی طرح وہ علیزہ کے بارے میں اتنی باتیں نہیں کرتے تھے۔ کھانے کی ٹیبل پر زیادہ تر ڈشز اس کی مرضی اور پسند کے مطابق بنتی تھیں۔ علیزہ سے کھانے کے بارے میں رائے لینا کم کر دیا گیا تھا۔ نانو ہر وقت اس کی صحت اور آرام کے بارے میں فکر مند رہا کرتی تھیں، اور وہ جیسے گھر میں ثانوی حیثیت اختیار کر گئی تھی۔ یہ سب کچھ اس کے لئے نیا نہیں تھا۔
ہر سال جب بھی اس کے ماموؤں اور خالاؤں میں سے کسی کی فیملی وہاں آتی تھی وہ اسی طرح پس پشت چلی جایا کرتی تھی۔ تب نانا اور نانو کی توجہ صرف آنے والے لوگوں پر ہی مرکوز رہتی تھی۔ مگر اسے یہ سب اتنا برا نہیں لگتا تھا، کیونکہ وہ لوگ صرف چند ہفتے ہی ٹھہرتے تھے۔ مگر عمر جہانگیر کو ابھی بہت عرصہ وہاں رہنا تھا، اور اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے اس نے بڑے آرام سے اس کی جگہ ہتھیا لی ہے۔




اس دن دوپہر کو سو کر اٹھنے کے بعد اس نے حسب معمول کرسٹی کو ڈھونڈنا شروع کیا تھا۔ وہ سیڑھیوں کے نیچے نہیں تھی۔ اس وقت وہ باہر لان میں بھی نہیں ہو سکتی تھی۔ اس کی مخصوص جگہوں پر اسے پانے میں ناکام رہنے کے بعد اس نے اسے آ وازیں دینی شروع کر دی تھیں۔ مگر وہ نہیں آئی تھی۔
”نانو کرسٹی کہاں ہے؟”
وہ نانوکے کمرے میں چلی آئی تھی، وہ ابھی آرام کر رہی تھیں۔
”عمر کے کمرے میں دیکھو وہاں ہو گی۔ ”
انہوں نے اسے بتایا۔
”عمر کے کمرے میں……لیکن کرسٹی تو کبھی کسی کے پاس نہیں جاتی۔۔۔۔”
اسے ان کی بات پر جیسے صدمہ ہوا تھا۔
”ہاں! لیکن عمر کے ساتھ بہت اٹیچ ہو گئی ہے۔ تمہارے بعد سارا دن اس کے ساتھ ہوتی تھی۔ ابھی بھی وہیں ہوگی۔”
نانو نے آنکھیں بند کرتے ہوئے کہا تھا۔
وہ چپ چاپ ان کے کمرے سے نکل آئی تھی۔ اسے ابھی بھی ان کی بات پہ یقین نہیں آرہا تھا کہ کرسٹی اس کے علاوہ کسی اور کے پاس جا سکتی ہے۔ عمر کے کمرے کے دروازے پر اس نے کچھ ہچکچاتے ہوئے دستک دی تھی۔
”یس! کم ان۔ ”
اندر سے فوراً ہی اس کی آواز ابھری تھی اور وہ دروازہ کھول کر اندر چلی گئی۔
”کرسٹی یہاں تو۔۔۔۔۔”
اس نے بات ادھوری چھوڑ دی۔ وہ سامنے ہی راکنگ چیئر پر جھول رہا تھا۔ اس کے ایک ہاتھ میں کتاب تھی اور دوسرا ہاتھ کرسٹی کو سہلا رہا تھا۔ وہ اس کی گود میں بیٹھی ہوئی تھی۔ علیزہ کو دیکھ کر بھی کرسٹی نے اپنی جگہ سے ہلنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ وہ بڑے اطمینان سے اپنی جگہ بیٹھی رہی تھی۔ علیزہ صدمے اور مایوسی سے اسے دیکھتی رہی۔
”ہاں ! کرسٹی میرے پاس ہے، جاؤ کرسٹی۔ ”

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!