نانو نے اسے واپس بلانے کی کوشش کی تھی۔ وہ پیچھے مڑے بغیر ہی وہاں سے چلی گئی۔ عمر حیرانی سے اسے جاتے دیکھتا رہاتھا۔
”اسے کیا ہوا؟ کیاناراض ہو کر گئی ہے؟”اس نے ڈائننگ سے نکلتے ہوئے اپنے پیچھے عمر کی آواز سنی تھی۔
”نہیں علیزہ کبھی ناراض نہیں ہوتی، اسے کبھی غصہ نہیں آتا۔ شاید ویسے ہی بھوک ہی نہیں تھی۔ میں ابھی پوچھوں گی جا کر ۔”
نانو نے نے اس کے جانے کے بعد عمر سے کہا تھا۔
وہ کچھ دیر سبزی کے ڈونگے کو دیکھتا رہا پھر کھانا کھانے لگا مگر اس کا ذہن الجھ چکا تھا۔
نانو کھانے سے فارغ ہو کر سیدھا اس کے کمرے میں آئی تھیں،اور اسے لمبا چوڑا لیکچر دیا۔
”مجھے حیرانی ہو رہی ہے علیزہ ! کہ تم نے میری بات بھی نہیں سنی اور اس طرح اٹھ کر باہر آ گئیں۔ کیا سوچ رہا ہو گا عمر کہ تم کتنی بد تمیز لڑ کی ہو۔ ”
وہ واقعی خفا تھیں۔
”I am sorry.” (مجھے افسوس ہے)
وہ ہلکے سے منمنائی۔
”اب اس کا کیا فائدہ ، بہرحال آئندہ خیال رکھنا کہ ایک بار ڈائننگ ٹیبل پر آ نے کے بعد اس طرح اٹھ کر نہیں آتے۔ وہ بھی اس وقت جب سب کھانا کھا رہے ہوں۔ تمہارا دل کھانے کو نہیں چاہ رہا تھا تم سلاد لے لیتیں یا سویٹ ڈش لے لیتیں، مگر تمہیں وہیں بیٹھنا چاہیے تھا۔ ”
نانو اسے مینرز کی وہی پٹی پڑھا رہی تھیں جوہمیشہ سے ہی پڑھاتی آ ئی تھیں۔ وہ خاموشی سے ان کی بات سنتی رہی، اس کی رنجیدگی میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔
”ضرور عمر نے ان سے میرے بارے میں کچھ کہا ہو گا۔ ”
وہ ان کی باتوں پر اس سے اور بد گمان ہو تی جا رہی تھی۔
”میں نے مرید سے کہہ دیا ہے وہ ابھی تمہیں دودھ میں اوولٹین ملا کر دے جائے گا۔ اب مجھے کوئی اعتراض نہیں سننا ہے۔ ”
نانو نے اٹھتے ہوئے اسے اطلاع دی تھی اور ساتھ ہی اس کے متوقع رد عمل پر خبر دار کر دیاتھا۔ وہ کچھ کہتے کہتے چپ ہو گئی۔ نانو کمرے سے نکل گئی تھیں وہ خاموشی سے بیڈ پر لیٹ گئی۔ عمر جہانگیر آج اسے سب سے زیا دہ برا لگ تھا۔ جو واحد چھوٹی چھوٹی چیزیں اس کی مرضی سے ہوتی تھیں اب ان میں بھی اس کا عمل دخل ختم ہو گیا تھا۔ مرید بابا نے کچھ دیر بعد دودھ لا دیا تھا، اس نے خاموشی سے دودھ کا گلاس لے کر پی لیا۔ پھر وہ سونے کے لئے لیٹ گئی تھی، لیکن سونے کی کوشش میں اسے بہت دیر لگی تھی۔