اگلے کچھ دن میں اس میں یہ تبدیلی آ گئی تھی کہ اس نے عمر سے بات کر نا بند کر دیا تھا۔ وہ اس کی بات کے جواب میں وہ پہلے والی ہوں ہاں بھی نہیں کرتی تھی جب تک وہ باقاعدہ اس کا نام لے کر بات نہ کرتا۔
اس دن وہ لاؤنج میں کارپٹ پر فلورکشن کے سہارے بیٹھی کوئی میگزین دیکھ رہی تھی۔ تب ہی اس کے ذہن میں ایک خیال آیا تھا اس نے احتیاط سے نانو کا موڈ دیکھنے کی کوشش کی تھی پھروہ سیدھی ہو کر بیٹھ گئی تھی۔
”نانو ایک بات پوچھوں؟ ”
اس نے ہو لے سے کہا تھا۔
”ہاں! پوچھو۔ ”
وہ اخبار میں غرق تھیں۔
”یہ عمر واپس کب جائے گا؟”
اس نے کافی احتیاط سے لفظوں کا انتخاب کرتے ہوئے کہا تھا۔
”بہت جلد، مائی ڈئیر کزن بہت جلد!”
سوال کا جواب کہیں اور سے ملا تھا۔ وہ اپنی جگہ پر بالکل ساکت بیٹھی اپنے سوال کا کوئی بہانہ سوچنے لگی۔
اب وہ اس کی پشت سے ہو کر اس کے بالکل سامنے آکر نانو کے ساتھ صوفہ پر بیٹھ گیا تھا۔
” بلکہ آپ جب چاہیں مجھے نکال دیں یہاں سے ۔ ”
اس نے علیزہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا۔
”فضول باتیں مت کرو، کوئی نہیں نکال رہا تمہیں یہاں سے۔ تمہاری وجہ سے تو رونق ہو گئی ہے گھر میں۔”
نانو نے اسے پیار سے جھڑکتے ہوئے اس کے گال چھوئے تھے۔ علیزہ نے کچھ کہنے کی بجا ئے میگزین اٹھایا اور وہاں سے واپس آ گئی تھی۔ کچھ شرمندگی کے عالم میں وہ لان میں آکر بیٹھ گئی تھی۔
چند منٹوں بعد اس نے قدموں کی چاپ سنی تھی، عمر اس کی طرف آ رہا تھا۔ وہ کچھ جھنجلا گئی، وہ قریب آکر ایک کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا تھا۔
”میں بہت دنوں سے تم سے ایک بات کہنا چاہ رہا تھا بلکہ شاید بہت سی باتیں، مگر تم نظر انداز کر رہی تھی۔ ”
”مجھے یہ بتاؤ کہ تم مجھے ناپسند کیوں کرتی ہو؟”
وہ اس کے اتنے ڈائریکٹ سوال پر کچھ گڑ بڑا گئی تھی۔
”ایسی کوئی بات نہیں ہے؟”
وہ کھڑی ہو گئی تھی۔
”تم بیٹھ جاؤ ورنہ میں تمہیں پکڑ کے بٹھا دوں گا۔ ”
وہ پہلی بار بے حد سنجیدہ نظر آرہا تھا۔ وہ خود بھی کھڑا ہو گیا تھا،وہ کچھ خفگی کے عالم میں سامنے بیٹھ گئی تھی۔
عمر نے درمیان میں پڑاہوا ٹیبل کھینچ کر ایک طرف کر دیا اور پھر اپنی کرسی کھینچ کر سیدھا اس کے سامنے آ کر بیٹھ گیا۔ وہ اس کے اتنے قریب بیٹھا ہوا تھا کہ وہ نر وس ہو گئی۔
”ہاں ! اب بتاؤ۔ ”
”آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے، میں آ پ کو ناپسند نہیں کرتی ہوں۔ ”
”ویری گڈ لیکن پھر تمہیں میرا یہاں رہنا اچھا کیوں نہیں لگ رہا؟”
”ایسا نہیں ہے۔ ”
”ایسا ہی ہے۔ اگر تم چاہو تو میں یہاں سے چلا جاتا ہوں۔ ”
”یہ میرا گھر نہیں ہے کہ میں یہاں سے کسی کو نکالوں۔ ”
وہ نا چاہتے ہوئے بھی اپنی خفگی ظاہر کر بیٹھی۔
”دیکھو میں کچھ باتیں واضح کر دینا چاہتا ہوں ،میں نہیں چاہتاکہ میری وجہ سے اس گھر میں کوئی تناؤ آئے۔ یہ گھر تمہارا تھا، اور رہے گا۔ مجھے تو یہاں رہنا نہیں ہے۔ چند ماہ کے بعد میں یہاں سے واپس لندن چلا جاؤں گا۔ میرا یہاں قبضہ جمانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے،پھر میری سمجھ میں نہیں آ رہا کہ تم کس بات پہ اتنی ناراض ہو۔ شکایت کیا ہے تمہیں مجھ سے؟ میرا تو خیال تھا کہ میں خاصا بے ضرر آدمی ہوں۔ ”
”مجھے آپ سے کوئی شکایت نہیں ہے ، لیکن آپ گھر میں ہر چیز کو dominate کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سارا کھانا آپ کی پسند کے مطابق بنتا ہے،ٹھیک ہے آپ مہمان ہیں لیکن جو چیز میں کرنا چاہتی ہوں اس میں تو کسی دوسرے کی مرضی۔۔۔”