مات ۔ عمیرہ احمد
اس نے آج پھر مجھے فون کیا تھا۔
”ایمن اسے کہو مجھے معاف کر دے ایک بار صرف ایک بار مجھ سے مل لے، مجھے اپنی شکل دکھا دے۔”
اس نے التجا کی تھی۔
”ثمن یہ میرے بس میں نہیں۔”
”کیسے تمھارے بس میں نہیں۔” وہ بے اختیار چلائی تھی۔
”تم اسے کچھ کہو اور نہ مانے یہ کیسے ہو سکتا ہے، وہ تمھارے اشاروں پر چلتا ہے اور تم کہتی ہو یہ بات میرے بس میں نہیں یہ کیوں نہیں کہتیں کہ تم ایسا چاہتی ہی نہیں۔”
اس کی آواز آنسوؤں سے بھیگ رہی تھی۔ میں نے آہستگی سے فون بند کر دیا۔
اس نے ٹھیک کہا تھا میں واقعی ایسا نہیں چاہتی تھی اور اگر میں چاہتی بھی تو جو دیواریں ان دونوں کے بیچ حائل تھیں انھیں پار کرنا کسی کے بس کی بات نہیں تھی اور پھر اسے کس چیز کی کمی ہے جو وہ میری واحد خوشی کو بھی چھین لینا چاہتی ہے مگر اب میں ایسا نہیں ہونے دوں گی، وہ ایمن مر چکی ہے جو اپنے گلے سے پھولوں کے ہار اتار کر اس کے گلے کے کانٹوں کے ہار پہن لیا کرتی تھی اور اس ایمن کا مر جانا ہی بہتر ہے۔
آنکھیں بند کیے کرسی پر جھولتے ہوئے میں مسلسل ثمن کے بارے میں سوچ رہی تھی اس کے فون نے، اس کی آواز اس کی التجا نے اس کے آنسوؤں نے یادوں کی ساری کھڑکیاں کھول دی تھیں اور میں انھیں بند کرتے کرتے تھک گئی تھی۔
کبھی کبھی اچھا لگتا ہے۔
رات کے اس پہریوں ماضی میں جھانکنا، جب آپ کو یقین ہو کہ آپ کے پیروں کے نیچے کی زمین اب اپنی جگہ نہیں چھوڑے گی اور یہ جانتے ہوں کہ سر پر موجود آسمان آپ پر نہیں آن گرے گا۔ اب میں ماضی کو آنسوؤں کے ساتھ یاد نہیں کرتی، اتنا سکون اتنا قرار ہے میرے اندر کہ کوئی خلش مجھے بے قرار نہیں کرتی، کھلی کھڑکی سے آنے والی ہوا بہت بھلی لگ رہی ہے۔ کاش یہ یوں ہی ساری عمر مجھے سہلاتی رہے۔
”آپ نے پوری کہانی نہیں سنائی اور مجھے سلا دیا۔”
میرے کمرے میں اچانک ایک آواز ابھری تھی اسامہ نیم اندھیرے میں اپنی موٹی موٹی آنکھیں کھولے مجھے دیکھ رہا تھا پتا نہیں کس وقت اس کی آنکھ کھل گئی تھی مجھے بے اختیار اس پر پیار آیا۔ میں اٹھ کر اس کے قریب بیڈ پر آ گئی اور ٹیبل لیمپ جلا دیا۔
”تم سو گئے تھے پھر کہانی کسے سناتی۔”
اس کے بالوں کو سہلاتے ہوئے میں نے کہا۔
”پھر اب سنائیں۔” اس نے میرے گلے میں بانہیں ڈال دیں میں نے اس کا ماتھا چوم لیا گیٹ پر اچانک ہارن کی آواز سنائی دی تھی وہ واپس آ گیا تھا میں نے وال کلاک پر نظر ڈالی رات کے دو بج رہے تھے۔
”کہانی سنائیں نا؟” اسامہ نے مجھے خاموش دیکھ کر اصرار کیا۔
”سناتی ہوں بھئی سناتی ہوں۔”
”تمھیں یاد ہے کہاں تک سنائی تھی؟” اس نے کہانی دہرانی شروع کی میں اس کی طرف متوجہ نہیں تھی۔ اس وقت وہ داخلی دروازہ کھول کر اندر آ گیا ہوگا، میں نے اندازہ لگانے کی کوشش کی تھی میں روز یہی کیا کرتی تھی۔
”اب وہ لاؤنج میں آ گیا ہوگا، ملازم نے اس سے چیزیں پکڑی ہوں گی۔” سیڑھیوں پر اس کے قدموں کی آواز آ رہی تھی وہ میرے اندازے کے عین مطابق سیڑھیاں چڑھ رہا تھا۔
میں جانتی تھی اب تھوڑی دیر میں وہ میرے کمرے میں آنے والا تھا۔ میں نے پیار سے اسامہ کے چہرے پر ہاتھ پھیرا۔
”شہزادی Palace کی کھڑی میں بیٹھ کر روز رویا کرتی تھی مگر کوئی اس کی مدد کو نہیں آتا تھا پھر ایک دن وہاں سے ایک شہزادہ گزرا، اب آگے سنائیں۔” اسامہ نے اپنی سنی ہوئی کہانی کا اعادہ کر دیا تھا اب وہ آگے سے کہانی سننے کا منتظر تھا۔
”پھر شہزادے نے شہزادی کو دیکھا…” میں نے کہانی شروع کی قدموں کی چاپ میرے دروازے پر رک گئی تھی اس نے ہینڈل گھمایا اور دروازہ کھول دیا۔
*****