Blog

Maat Title

وہ مجھے عجیب نظروں سے دیکھتا تھا، پتا نہیں کیا ہوتا تھا اس کی آنکھوں میں، میرا دل چاہتا تھا میں چیخ چیخ کر روؤں، اسے کہوں کہ میں نے اس پر کوئی ظلم نہیں کیا میں نے اس کی ماںسے کوئی زیادتی نہیں کی ہے مگر وہ کچھ پوچھتا ہی نہیں تھا، اس کی ماں زبان سے سب کچھ کہہ دیتی تھی وہ آنکھوں سے سب کچھ بیان کر دیتا تھا ثمن کی بات چبھتی نہیں تھی اس کی ان کہی مجھے خنجر کی طرح کاٹ دیتی تھی۔



ان ہی دنوں سعد مجھ سے اکھڑا اکھڑا رہنے لگا تھا، وجہ کیا تھی میں نہیں جانتی تھی، نہیں شاید میں جانتی تھی بس یقین نہیں کرنا چاہتی تھی حدید جب بھی آتا وہ سعد کے ساتھ تنہائی میں لمبی لمبی گفتگو کیا کرتا تھا اور بعض دفعہ وہ لڑ بھی پڑتا تھا۔ اس کی آواز اسٹڈی سے باہر تک آتی اور میرا دل دہل جاتا۔
میں نے کبھی دوبارہ ان کی باتیں سننے کی کوشش نہیں کی اتنا حوصلہ ہی کہاں تھا، اس عمر میں جب بڑے سے بڑے شخص کو بھی کچھ آرام مل جاتا تھا میں سکون سے محروم ہو گئی تھی، حدید نے ایک دن مجھے کہا تھا۔
”آپ… آپ بہت احمق ہیں۔”
پھر وہ برہم انداز میں باہر چلا گیا تھا، یہ واحد جملہ تھا جس نے مجھے تکلیف پہنچائی تھی ورنہ مجھے اس سے کبھی بھی کوئی شکایت نہیں ہوئی تھی میں نے اس دن کچھ نہیں کھایا تھا۔
”ہاں میں واقعی احمق ہوں۔” اپنے چہرے کی جھریاں گنتے ہوئے میں نے اس دن اپنے آپ سے کہا تھا۔
”حدید نے کہا ہے تو ٹھیک ہی ہوگا وہ غلط کہاں کہتا ہے۔”
اس دن سعد آفس نہیں گیا تھا، میں بہت حیران تھی سعد تو بیمار ہونے کی صورت میں بھی آفس کا ایک چکر ضرور لگاتا تھا مگر اس دن تو اس نے بغیر کسی وجہ کے چھٹی کر لی تھی، وہ صبح دیر تک سوتا رہا پھر دوپہر کے قریب وہ کھانا کھانے کے لیے نیچے آیا تھا۔بہت بے ڈھنگے انداز میں اس نے کھانا کھایا، یوں لگتا تھا جیسے وہ ذہنی طور پر کہیں اور ہے۔ کھانا کھانے کے بعد اس نے مجھے کہا تھا۔
”تم اوپر آؤ مجھے تم سے کچھ باتیں کرنی ہیں۔”
میرا سانس رک گیا تھا۔



”اب اسے مجھ سے کیا باتیں کرنی ہیں؟” مگر میں اس کی بات سننے کے لیے چلی گئی تھی اس نے مجھے کہا تھا۔
”میری بات غور سے سننا ایمن، صبر سے اور حوصلے سے۔” پھر اس نے مجھے دیکھے بغیر ایک لفافہ میرے پاس بیڈ پر رکھ دیا تھا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!