Blog

Maat Title

پچیس سال کے جمع کیے ہوئے آنسو آج ابل پڑے تھے پھر انھیں روکنا ان پر بند باندھنا میرے بس سے باہر تھا، اپنا خون اپنا ہی ہوتا ہے، مجھے یقین نہیں آتا تھا اس بات پر مگر حدید نے اسے ثابت کر دیا تھا، پتا نہیں میرا دوپٹہ اور جوتا کہاں رہ گئے تھے مجھے بس یہ یاد ہے کہ میں کسی سڑک پر بے تحاشا بھاگ رہی تھی۔ گاڑیاں مجھے سامنے دیکھ کر بریک لگاتیں ان کے ڈرائیو اونچی آواز سے اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے اور میں بس بھاگتی جا رہی تھی۔



پتا نہیں میں کب تک اس طرح بھاگتی رہی، ہاں مجھے یاد ہے کہ اس وقت اندھیرا تھا اور میں شہر سے باہر جانے والے کسی راستے پر سڑک کے کنارے گر کر رونے لگی تھی، مجھے حدید یاد آ رہا تھا، اس نے ایک بار بھی نہیں سوچا کہ میں نے اس سے کتنی محبت کی ہے۔ ساری ساری رات میں اسے گود میں لے کر بیٹھی رہا کرتی تھی۔ اسے خراش آتی تو مجھے لگتا تھا جیسے کسی نے مجھے زخمی کر دیا ہے۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آتے تو مجھے لگتا دنیا ڈوب رہی ہے وہ ایک وقت کھانا نہ کھاتا تو مجھے سارا دن بھوک نہ لگتی۔
”وہ بھی یہی چاہتا ہے۔” سعد کی آواز میرے کانوں میں گونج رہی تھی۔ میں اوندھے منہ کچی زمین پر پڑی بلک رہی تھی۔
”تم بھی ثمن کے ہو، سعد بھی ثمن کا ہے تو میرا کیا ہے، میرا کیا ہے، اب تمہاری ساری محبت ساری توجہ ثمن کے لیے ہوگی، وہ تمہاری شادی کرے گی، تمھارے بال بچے پالے گی اور پھر جب بوڑھی ہو گی تو تم اس کو ہتھیلیوں پر اٹھا کر رکھو گے اور میں یونہی رلتی پھروں گی۔”
میں خود سے باتیں کر رہی تھی اور ہر بات میرے دل پر ایک اور خراش لگا رہی تھی۔
”اماں! اماں! کون ہو تم؟ یہاں اس طرح کیوں رو رہی ہو؟ آئی کیسے ہو یہاں۔” ایک آواز نے مجھ پر سوالوں کی بوچھاڑ کر دی تھی۔ میں نے سر اٹھا کر اسے دیکھا تھا، ایک لمبا سا آدمی میرے سر پر کھڑا تھا۔
سڑک پر کھڑی اس کی ٹرالی کی لائٹس روشن تھیں اور اس روشنی میں اس کی صورت بہت واضح تھی۔
”میرا شوہر فوت ہو گیا ہے آج میرے بیٹے نے مجھے گھرسے نکال دیا۔” پتا نہیں میں نے کیا سوچا تھا اور یہ کہا تھا۔ پتا نہیں میں نے کیوں کہا مگر مجھے یاد ہے میں نے بہت بلند آواز سے جیسے کوئی گلہ اس سے کیا تھا اس نے مجھے کہا تھا۔
”دفع کرو اماں ایسی اولاد کو، اولادنہ ہوئی کتا ہو گیا۔ تم میرے ساتھ چلو میں تمھیں اپنے پاس رکھوں گا۔”
”پتا نہیں مجھے کیا ہوا تھا مگر میں ایک دم اس کے ساتھ جانے کے لیے تیار ہو گئی اس نے اپنی چپل مجھے پہنا دی اور پھر ٹرالی میں بٹھا کر ایک چادر نکال کر مجھے اوڑھا دی سارے راستے ٹرالی چلاتے ہوئے وہ مجھے پتا نہیں کیا بتاتا رہا۔ مجھے کچھ سنائی نہیں دیا تھا پھر وہ مجھے اپنے گھر لے آیا تھا۔ گھر میں اس کی اپنی ماں بھی تھی، مجھے دیکھ کر وہ حیران ہوئی تھی مگر میرے تعارف نے اس کے چہرے پر نرمی بکھیر دی تھی اس نے مجھے لپٹا لیا تھا۔
”تینوں رون دی کی لوڑ اے گھروں کڈیا اے دنیا وچوں تے نہیں، توں ساڈے نال رہے جو روٹی ٹکر اسی کھانے آں تو وی کھا لئی۔” (تمھیں رونے کی کیا ضرورت ہے گھر سے نکالا ہے ناں، دنیا سے تو نہیں، تم ہمارے ساتھ رہو جو دال روٹی ہم کھاتے ہیں تم بھی کھا لینا۔) میں سوجی ہوئی آنکھوں کے ساتھ اس کی بات کا جواب دیے بغیر اسے دیکھتی رہی۔
”اپنی اولاد ایسی ہی ہوتی ہے اور اس پر ایسا ہی مان ہوتا ہے۔ جیسا اسے ہے کتنے آرام سے کہہ رہی ہے کہ میں اس کے پاس رہ جاؤں اور ایک میں ہوں کہ…” میری سوچوں کا سلسلہ اس کی آواز نے توڑ دیا تھا۔
”توں اندر آ میں تینوں کپڑے دینی آں او بدل لے تے نالے روٹی وی کھا لے۔”
(تم اندر آ جاؤ میں تمھیں کپڑے دیتی ہوں وہ بدل لو اور کھانا بھی کھا لو۔)
پھر اس نے میرے کپڑے بدلوائے تھے اور زبردستی چند لقمے مجھے کھلا دیے تھے پھر اپنے پاس ہی اس نے میری چارپائی بچھا دی، میری آنکھوں میں نیند نہیں تھی کچھ بھی نہیں تھا نہ خواب نہ امیدیں اور نہ ہی آنسو سب کچھ ختم ہو گیا بس میں آنکھیں بند کیے لیٹی رہی۔



اس کے بیٹے کا نام اکبر تھا وہ اس کا اکلوتا بیٹا تھا، اکبر سے چھوٹی دو بہنیں تھیں اور وہ تینوں شادی شدہ تھے اکبر کے تین بچے تھے دو بیٹے اور ایک بیٹی اور اس کی بیوی اس دن بچوں کے ساتھ میکے گئی ہوئی تھی، اکبر کے باپ کا کافی سال پہلے انتقال ہو گیا تھا اور اس کی وفات کے بعد اکبر ہی اس کی زمینوں پر کاشت کاری کرتا تھا، وہ کوئی بہت بڑا زمیندار نہیں تھا بس اوسط حیثیت کا مالک تھا لیکن وہ سب خوش تھے اس سے بھی جو ان کے پاس تھا اور اس پر بھی جو ان کے پاس نہیں تھا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!