پتا نہیں میں وہاں کتنے دن رہی، وقت یک دم میرے لیے اپنے معنی کھو چکا تھا بلکہ ہر چیز ہی اپنی اہمیت کھو چکی تھی، بس مجھے یہ پتا تھا کہ میں زندہ ہوں اس سے آگے کیا تھا کچھ معلوم نہیں، میں روتی نہیں تھی میں ہنستی بھی نہیں تھی بس میں خاموش رہتی تھی سارا دن کمرے کے ایک کونے میں پڑی رہتی کوئی زبردستی کھانا کھلاتا تو چند لقمے زہر مار کر لیتی، کوئی کپڑے بدلواتا تو بدل لیتی اور بس۔
اکبر مجھے کہتا کہ میں اسے اپنا بیٹا سمجھوں مگر میں ایسا کیسے کرتی جسے بیٹا سمجھا تھا اس نے کیا کیا، اسے بیٹا سمجھتی تو وہ بھی کچھ ویسا ہی کرتا اس کی بیوی اور بچے بھی میرا بہت خیال کرتے تھے۔ بار بار میرے پاس آتے میرا دل بہلانے کی کوشش کرتے تھے مجھے اپنے ساتھ باتیں کرنے پر اکساتے مگر مجھے یہ سب نہیں آتا تھا، میری آنکھوں کے سامنے تو ہر وقت حدید کا چہرہ رہتا تھا۔
میں سوچتی تھی اس وقت وہ سب کیا کر رہے ہوں گے یقینا بہت خوش ہوں گے۔ سعد، ثمن، حدید ان کا خاندان تو مکمل ہو گیا تھا، جو بچھڑا تھا مل گیا تھا وہ سب خوب ہنستے ہوں گے، ثمن اور سعد کو حدید پر فخر ہو گا کہ اس نے اپنے ماں باپ کو ملا دیا اور حدید خوش ہوگا کہ اسے اس کی ماں مل گئی تھی پھر میری اسے ضرورت ہی کیا رہ گئی تھی واقعی ماں تو ماں ہی ہوتی ہے اور میں تو بس آیا تھی پالنے والی کا احسان ہی کیا ہوتا ہے جو میںجتاتی۔
سوچیں سانپوں کی طرح میرے ذہن کو ڈستی رہتی تھیں اور میں تاریک کمرے کے ایک کونے میں آنکھیں بند کیے پڑی رہتی۔
نہ جانے کتنے دن گزر گئے تھے مجھے اس اندھیرے تاریک کمرے میں کچھ اندازہ ہی نہیں تھا پھر ایک دن دل چاہا وہاں سے نکلنے کو، سورج کی روشنی دیکھنے کو، اس کی حدت محسوس کرنے کو اور میں اٹھ کر باہر آ گئی تھی چند لمحوں کے لیے روشنی نے میری آنکھوں کو چندھیا دیا تھا پھر آہستہ آہستہ آنکھوں کو کھولتے ہوئے میں نے اردگرد کے ماحول کو سمجھنے کی کوشش کی تھی۔
دور ایک کونے میں اکبر کی بیوی تندور میں روٹیاں لگا رہی تھی اور اس سے کچھ فاصلے پر اس کے بچے چوزوں کے ساتھ کھیل رہے تھے میں آہستہ آہستہ اور باہر آ گئی کچی زمین کو مٹی سے لیپا گیا تھا بہت اچھا لگا تھا مجھے اس نیم گرم زمین پر ننگے پاؤں چلنا صحن کے وسط میں آ کر میں زمین کو ٹٹولتی رہی پھر میں ٹانگیں سکیڑ کر کروٹ کے بل زمین پر لیٹ گئی۔
نیم گرم زمین نے میرے جسم کو عجیب سا سکون دیا تھا، میں اس طرح ٹانگیں سکیڑے آنکھیں بند کیے زمین پر پڑی رہی۔
”ماں چارپائی بچھا دیتی ہوں یہاں زمین پر کیوں لیٹ گئیں؟” اکبر کی بیوی کی آواز اچانک میرے قریب ابھری تھی۔
”نہیں ٹھیک ہے۔” میں نے نامکمل سا جواب دیا تھا کچھ دیر تک وہ اصرار کرتی رہی مگر میرے خاموش رہنے پر وہ چلی گئی تھی۔ جان گئی تھی کہ میں وہی کروں گی جو چاہتی ہوں تھوڑی دیر بعد کسی نے ایک گرم چادر مجھ پر اوڑھائی تھی میں جانتی تھی یہ اکبر کی بیوی ہوگی، میں نے چادر سے اپنے چہرے اور کندھوں کو اچھی طرح ڈھانپ لیا۔
ایک عجیب سی خاموشی اور سکوت تھی ہر طرف کبھی کبھی اس خاموشی کو اکبر کے بچوں کی آوازیں توڑ دیتی تھیں مگر پھر ان کی ماں ڈانٹ کر انھیں خاموش کرا دیتی تھی۔
کیا میں نے کبھی سوچا تھا کہ میری منزل یہ ہوگی، ماربل کے فرش پر چلتے چلتے میں خاک کی زمین پر سونے لگی تھی، اگر میری زمین کا حاصل یہی ہوتا تو پھر یہ پچھلے پچیس سال کی محنت کس لیے، میں نے ان سے کیا پایا اور جو یوں ہونا تھا تو یوں ہی سہی آخر اس میں بھی برا کیا ہے کس کس کا ماتم میں کتنی دیر مناؤں گی۔ سعد کا، ثمن کا، گھر کا یا پھر حدید کا، مجھے پھر حدید یاد آ گیا تھا، ہر بات کا سلسلہ وہیں جا کر رکتا تھا، ہر تان وہیں ٹوٹتی تھی، نہ جانے وہ کیا کر رہا ہوگا پتا نہیں اسے میرا خیال بھی آتا ہوگا کہ نہیں کبھی کبھی تو مجھے یاد کرتا ہوگا۔