میں نے ایک خوش فہمی سے خود کو بہلانا چاہا، کتنا خوش ہوگا وہ ثمن کے ساتھ، اس کی یہ کمی بھی پوری ہو گئی تھی، میں واقعی احمق تھی جو یہ سمجھتی رہی کہ میں نے اس کی ہر کمی پوری کر دی ہے اب وہ میرے علاوہ کسی کے بارے میں سوچتا ہی نہیں ہوگا، مگر ایسا نہیں تھا میں نے چہرے پر سے چادر ہٹائی۔
”ہر چیز اپنے اصل کی طرف لوٹتی ہے۔” کسی کی آواز میرے پاس گونجی تھی میں نے پھر چادر سے چہرے کو ڈھانپ لیا، کوئی میرے قریب آیا تھا پھر کسی نے میرے پیروں پر ہاتھ رکھا تھا، میں نے سوچا یہ اکبر کا چھوٹا بیٹا ہوگا وہ اکثر پیروں سے ہی کھیلتا تھا، میں نے اسے روکا نہیں بس اسی طرح لیٹی رہی پھر کسی نے اچانک میرے پیروں کو چومنا شروع کر دیا، میں ہڑبڑا کر اٹھی تھی۔
میرے پیروں میں گھٹنوں کے بل جھکا ہوا شخص حدید تھا صرف ایک لمحے کے لیے میں ساکت ہوئی تھی، پھر تیزی سے میں نے اپنے پیر کھینچ لیے وہ سیدھا ہو گیا، میری اور اس کی نظریں ٹکرائیں تھیں، بہت عجیب سی کیفیت تھی اس کی آنکھوں میں۔
”آپ کہاں چلی گئی تھیں مجھے اس طرح چھوڑ کر۔”
میں نے اس کی بات کا جواب دیے بغیر اٹھنے کی کوشش کی اس نے مجھے روکنے کے لیے میرے گھٹنوں پر ہاتھ رکھا مگر میں نے اس کا ہاتھ جھٹک دیا۔
”مجھے ہاتھ نہ لگاؤ تم میرے لگتے کیا ہو۔” میں غرائی اور وہ ایک جھٹکے سے پیچھے ہو گیا تھا بہت بے یقینی کے عالم میں اس نے مجھے دیکھا، میں اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔
”آپ کو ہوا کیا ہے؟” وہ میرے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا تھا۔
”میں پاگل ہو گئی ہوں۔” میں نے یہ کہتے ہوئے اندر جانے کی کوشش کی تھی۔
”ممی۔” میں اس کی بات پر بھڑک اٹھی تھی۔
”مجھے ممی مت کہو، تمہاری ماں نہیں ہوں، تم سے میرا کوئی رشتہ نہیں ہے تمہاری ماں وہ ہے جس کے لیے تم نے مجھے طلاق دلوا دی۔”
”آپ کیا کہہ رہی ہیں مجھے سمجھ نہیں آ رہا۔”
میں نے جواب دیے بغیر اندر جانے کی کوشش کی مگر اس نے میرے بازو پکڑ لیے۔
”آپ میرے ساتھ ایسا کیوں کر رہی ہیں کیا غلط فہمی ہو گئی ہے آپ کو میرے خلاف۔” وہ میرے بازو پکڑے گڑگڑا رہا تھا مگر میں اس کی کوئی بات سننا نہیں چاہتی تھی نہ اس سے کچھ کہنا چاہتی تھی۔ میں خود کو اس کی گرفت سے چھڑانے کی کوشش کرتی رہی مگر اس نے مجھے بہت مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا میں کسی طرح بھی اس سے خود کو نہیں چھڑا پا رہی تھی۔
ایک عجیب سی ہیجانی کیفیت مجھ پر سوار ہو گئی تھی پتا نہیں کیا ہوا کہ میں نے خود کو چھڑانا بند کر دیا اور پھر پتا نہیں کیسے میں اسے مارنے لگی تھی میں نے اس کے چہرے پر تھپڑوں کی بارش کر دی۔ بے یقینی کی ایک عجیب سی کیفیت تھی اس کے چہرے پر مگر اس نے مجھے چھوڑا نہیں نہ ہی مجھے روکنے کی کوشش کی بس خاموشی سے مار کھاتا رہا۔
میرا دل چاہ رہا تھا میں اس کی خوبصورت شکل بگاڑ دوں وہ چہرہ جو ہمیشہ مجھے ثمن کی یاد دلاتا تھا میں اس چہرے کو مٹا دینا چاہتی تھی اس کا ہونٹ پھٹ گیا تھا، ناک میں سے خون نکلنے لگا تھا چہرے پر جا بجا میرے ناخنوں سے پڑنے والی خراشیں نظر آ رہی تھیں قمیص کے بٹن ٹوٹ گئے تھے مگر وہ بڑی ثابت قدمی سے اسی طرح مجھے پکڑے ہوئے مار کھاتا رہا۔
صحن میں اکبر سمیت اس کا پورا خاندان کھڑا تھا، دیوار پر ہمسایوں کی کچھ عورتیں جھانک رہی تھیں وہ سب بے حس و حرکت یہ تماشا دیکھ رہے تھے۔ میں نے اسے بہت مارا تھا، بہت گالیاں دی تھیں وہ سب جو پچھلے پچیس سال سے میرے اندر جمع ہو گیا تھا وہ میں اس دن نکال رہی تھی وہ سب جو میں دوسروں سے کہنا چاہتی تھی وہ میں نے اسے کہہ دیا تھا۔