اسے مارتے مارتے میرے ہاتھ دکھنے لگے تھے۔ میری ساری ہمت جواب دے گئی تھی اس کا چہرہ دیکھنے کی ہمت مجھ میں نہیں رہی تھی میں نے پوری زندگی اسے سخت ہاتھ نہیں لگایا تھا اب میں اسے مار رہی تھی، آخر میرے ہاتھ رک گئے، میں بلک بلک کر رونے لگی۔ اس نے میرے بازو چھوڑ دیے اور میں جیسے زمین پر ڈھے گئی تھی اس نے اپنا جوتا اتار کر میرے ہاتھوں میں تھمانے کی کوشش کی تھی۔
”اور مارنا چاہیں تو اس سے ماریں۔” اس نے کہا تھا میں نے جوتے کو پرے دھکیل دیا اور چیخیں مار مار کر رونے لگی تھی، اس نے مجھے چپ کروانے کی کوشش نہیں کی پتا نہیں میں کتنی دیر تک روتی رہی تھی۔ جب آنسو نکلنا ختم ہو گئے اور میں نے آنکھیں کھول کر اٹھنے کی کوشش کی تھی تو اسے اپنے پاس پایا تھا، اس نے سہارا دے کر مجھے اٹھایا تھا میں نے اسے روکا نہیں صحن میں اب کوئی بھی نہیں تھا، نہ ہی دیواروں پر عورتیں تھی پتا نہیں سب کہاں چلے گئے تھے۔
حدید اٹھ کر نل کے پاس چلا گیا تھا پھر ایک گلاس میں وہ پانی لایا تھا، مجھے گلاس تھمانے کے بجائے اس نے گلاس میرے ہونٹوں سے لگا دیا۔ میں نے گھونٹ گھونٹ کر کے پانی پیا تھا۔
”بس۔” میں نے گلاس کو ہاتھ سے پرے کیا تھا اس نے باقی پانی خود پی لیا تھا، پھر اس نے میرے بکھرے ہوئے بالوں کو سمیٹ کر لپیٹ دیا تھا اور کچھ فاصلے پر پڑی ہوئی چادر لا کر مجھے اوڑھا دی میں بغیر کسی مزاحمت کے ایک مجسّمے کی طرح بیٹھی رہی۔
وہ دوبارہ نل کے پاس آ گیا تھا اور اپنے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارنے لگا تھا پھر گیلے ہاتھوں سے اس نے اپنے بال سلجھائے، جیب سے رومال نکال کر اس نے اپنا چہرہ اور ہاتھ صاف کیے، کچھ دیر تک وہ اپنی شرٹ کے اوپر والے ٹوٹے ہوئے بٹنوںوالی جگہ کو کسی طرح ساتھ جوڑنے کی کوشش کرتا رہا تھا پھر اس نے انھیں کھلا چھوڑ دیا اور گلے میں باندھا ہوا رومال نکال دیا۔
میں خاموشی سے دور بیٹھی اسے تکتی رہی پھر وہ میرے پاس آنے کی بجائے اندر چلا گیا تھا اور کچھ دیر بعد میرے لیے ایک چپل کے ساتھ برآمد ہوا تھا اس کے پیچھے اب کی بار اکبر کے گھر والے بھی تھے، اس نے چپل میرے پاس رکھ دی اور پھر ہاتھ پکڑ کر مجھے کھڑا ہونے میں مدد دی تھی، میں نے اس کے کہنے سے پہلے ہی چپل پہن لی۔
”کنا سونا پتر اے تیرا جے تیرے بندے نے گھروں کڈ دتا ہے، تے کاغذ دے دتا اے توفیر وی توں فکر نہ کری، تیرے کول تیرا پتر اے اللہ عمر دے۔” (کتنا خوبصورت بیٹا ہے تمہارا، اگر شوہر نے گھر سے نکال کر طلاق دے دی ہے تب بھی فکر مت کرنا، تمھارے پاس تمہارا بیٹا ہے۔ اللہ اس کو زندگی دے۔)
اکبر کی ماں نے مجھ سے لپٹ کر کہا تھا، میں چپ رہی تھی، تو آخر ان کو حقیقت کا پتا چل ہی گیا میں نے اس کی بات پر سوچا تھا۔
”تسی میرے اتے بڑا احسان کیتا ہے، میں ایس احسان دا بدلہ نہیں دے سکدا، فیر وی اگر کدی توانوں میری ضرورت پوے تو آ جائیوں میرے کولوں جو ہووے گا میں کراں گا۔”
حدید بڑی رواں پنجابی میں اکبر سے مخاطب تھا اور میں چونک اٹھی تھی، اسے تو پنجابی نہیں آتی تھی، بچپن سے لے کر اب تک میں نے کبھی اس سے پنجابی میں بات نہیں کی تھی اور نہ ہی اسے کبھی پنجابی بولتے سنا تھا اور آج وہ بڑے آرام سے پنجابی میں مخاطب تھا۔ مجھے واقعی حدید کے بارے میں کم معلومات تھیں میں نے مایوسی سے سوچا تھا، وہ اکبر اور اس کی ماں سے باتوں میں مصروف تھا اور میں سوچوں میں۔
”آخر مجھے اس کے ساتھ جانے کی کیا ضرورت ہے اور آخر میں جا کیوں رہی ہوں، یہ مجھے لینے آیا کیوں ہے اور یہ مجھے اپنے پاس لے جا کر کیا کرے گا۔” سوالوں کا ایک ڈھیر میرے پاس جمع تھا۔ اس نے اکبر کے بچوں کو کچھ روپے تھمائے تھے اور پھر میرا ہاتھ تھام کر وہ اپنی جیپ کے پاس لے آیا تھا، کچھ عورتیں اور بچے باہر گلی میں نکل آئے تھے۔ وہ انھیں نظر انداز کرتا ہوا میرا ہاتھ تھامے مجھے گاڑی میں بٹھانے لگا۔
اکبر کھڑکی کے پاس آیا تھا میں نے بے اختیار اس کے سر پر ہاتھ پھیرا تھا، وہ سعادت مندی سے پیچھے ہٹ گیا تھا حدید نے گاڑی اسٹارٹ کر دی اور کچھ ہی دیر میں ہم اس گاؤں سے نکل کر مین روڈ پر آ گئے تھے۔ میں نے گاڑی کی سیٹ سے ٹیک لگا کر آنکھیں بند کر لیں تمام راستے حدید نے مجھ سے کوئی بات نہیں کی، وہ بس خاموشی سے گاڑی چلاتا رہا راستے میں ایک دو بار رک کر اس نے مجھے چائے اور کھانا کھلایا تھا اور پھر اسی طرح خاموشی سے گاڑی چلا دی۔