Blog

Maat Title

”آپ کو نہیں پتا، میں آپ کو کہاں کہاں ڈھونڈتا رہا ہوں کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں میں نے آپ کا پتا نہ کروایا ہو کوئی رشتہ دار ایسا نہیں جہاں میں نہ گیا ہوں اور جس جس رشتہ دار کے پاس جاتا رہا اس سے آپ، ثمن اور سعد کے بارے میں وہ سب کچھ پتہ چلتا رہا جو مجھے معلوم نہیں تھا جو آپ نے چھپایا اسے لوگوں نے عیاں کر دیا۔
مجھے اس عورت پر افسوس ہوا جس نے مجھے پیدا کیا تھا اور اس آدمی پر بھی جو میرا باپ کہلاتا ہے اور آپ پر بھی اس دور میں اتنا ایثار اتنی قربانی کس کے لیے، کیوں کیا، آپ انسان نہیں ہیں کیا آپ کے جذبات نہیں ہیں۔



ممی میں نے ٹھیک کہا تھا آپ بہت احمق ہیں، جو اپنے حق کے لیے خود نہیں لڑ سکتا کوئی دوسرا اس کے لیے کیسے لڑے گا اور آپ کو تو اپنی چیز اپنے پاس رکھنی بھی نہیں آتی آپ تو اپنی چیز کی حفاظت تک نہیں کر سکتیں، آپ نے کیا سوچا تھا کہ میں ایبٹ آباد سے واپس جا جا کر آپ کی بہن اور آپ کے شوہر کے درمیان صلح کرواتا رہا تھا اس عورت کے لیے لڑ رہا تھا جس نے مجھے پیدا کیا تھا، نہیں میں تو آپ کے لیے لڑ رہا تھا میں تو اس سب کو ہونے سے روکنا چاہتا تھا جو اب ہو گیا ہے۔
آپ جانتی ہیں آپ کے سابقہ شوہر کتنے ماہ سے آپ کی بہن کے ساتھ پھر رہے تھے وہ جو ہر ایک دو ہفتے کے بعد غائب ہو جاتے تھے وہ کوئی بزنس ٹرپ نہیں ہوتا تھا بلکہ وہ دونوں سیر و تفریح کے لیے مری وغیرہ آیا کرتے تھے اور میں نے بھی انھیں وہیں دیکھا تھا اس عورت کا چہرہ بہت مانوس سا لگا لیکن میں فوراً اسے پہچان نہیں پایا اور پھر جب پہچانا تو مجھے ایک شاک لگا تھا کیونکہ آپ دونوں نے مجھے یہی بتایا تھا کہ وہ مر چکی ہے اور اگر وہ مر گئی تھی تو اب زندہ کیسے ہو گئی تھی۔
میں اسی کے بارے میں پوچھنے کے لیے لاہور جاتا رہا، میں ان دونوں کے اصلی تعلقات کے بارے میں جاننا چاہتا تھا، ان دونوں میں طلاق کیوں ہوئی میں یہ جاننا چاہتا تھا اور آپ کو پتا ہے کہ آپ کی بہن اور آپ کے سابقہ شوہر دونوں نے مجھ سے اس طلاق کی اصل وجوہات کے بارے میں جھوٹ بولا، انھوں نے کہا کہ آپ نے ان کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کر دی تھیں مگر مجھے یقین نہیں آیا پھر میں نے ان کے درمیان ہونے والی خلع کاریکارڈ نکلوایا، تب مجھ پر بہت سے انکشافات ہوئے تھے۔
آپ کی بہن کا دوسرا شوہر چند سال پہلے مر گیا تھا۔ لہٰذا میں اس سے تو نہیں مل سکتا تھا ہاں میں نے اس کی فیملی میں اس کے بہن اور بھائیوں سے ملاقات ضرور کی سو جو کچھ ابہام رہ گئے تھے وہ بھی دور ہو گئے۔
مجھے آپ سے حقیقت چھپانے کا گلہ تھا، اس لیے کچھ دنوں تک میں آپ سے خفا بھی رہا مگر آپ نے ایک بار بھی مجھ سے وجہ نہیں پوچھی، آپ نہیں جانتیں میں آپ کے شوہر کو آپ کی بہن سے ملنے سے روکنے کے لیے کتنا لڑتا رہا ہوں، میں جانتا تھا کہ اگر وہ اسی طرح ملتے رہے تو پھر وہ آپس میں شادی کر لیں گے اور آپ کو طلاق دیے بغیر یہ نہیں ہو سکے گا۔
اگر وہ کوئی دوسری عورت ہوتی آپ کی بہن ہوتی تو میں یہ طلاق ہونے نہیں دیتا میں آپ کو اپنے پاس لے آتا اور اس شخص کو کہتا کہ وہ آپ کو طلاق نہ دے چاہے تو دوسری شادی کر لے مگر یہاں معاملہ الٹ تھا میں اس شادی کو روکنے کے لیے آپ کی بہن کے پاس بھی گیا تھا اور نہ چاہتے ہوئے بھی میں نے اس کی منتیں کی تھیں کہ وہ اس شادی کا خیال دل سے نکال دے جو چیز جیسے ہے اسے رہنے دے میں نے اسے کہا تھا کہ اگر وہ یہ شادی نہ کرے تو میں اس سے دوبارہ ملنا شروع کر دوں گا بلکہ اگر وہ چاہے گی تو میں اسے اپنے پاس رکھ لوں گا بس وہ آپ کو اپنے شوہر کے پاس رہنے دے۔
میں جانتا تھا کہ بہت عرصے کے بعد آپ کے تعلقات اپنے شوہر کے ساتھ ٹھیک ہوئے تھے اور آپ ان کے ساتھ بہت خوش تھیں اور میں آپ کی اس خوشی کو قائم رکھنا چاہتا تھا۔ میں نے اسے کہا تھا کہ اگر وہ اس شادی کا خیال دل سے نہیں نکالتی تو پھر یہ سوچ لے کہ وہ شوہر کو تو پالے گی مگر بیٹے کو کھودے گی میں دوبارہ اس کی شکل بھی نہیں دیکھوں گا مگر اس نے کہا تھا کہ میں پاگل ہو گیا ہوں جو اپنی ماں کا خیال کرنے کی بجائے ایک غیر عورت کے لیے اپنی ماں کا گھر آباد ہونے نہیں دے رہا۔




اس نے کہا تھا اس کی شادی کے بعد ہمارا ٹوٹا ہوا گھر پھر سے مکمل ہو جائے گا، مجھے میری ماں مل جائے گی اور اسے اس کا شوہر لیکن میں نے اسے کہا تھا کہ مجھے اس گھر کے مکمل ہونے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے میں ہر چیز پہلے کی طرح رکھنا چاہتا ہوں، میں نے آپ کے شوہر سے بھی بہت دفعہ کہا تھا کہ وہ آپ کو طلاق نہ دے میں نے اسے کہا تھا کہ میں لوگوں کو کیا بتاؤں گا، کیا کہوں گا کہ اس نے اس عمر میں میری ماں کو طلاق کیوں دے دی ہے۔ کیا خرابی نظر آئی ہے اسے، مگر وہ بھی بار بار مجھے یہی کہتا رہا تھا کہ تمھیں اپنی اصلی ماں کا خیال نہیں ہے جو ساری عمر تمھارے لیے تڑپتی رہی ہے تمھیں بار بار اس کا خیال آ رہا ہے جس کے ساتھ تمہارا کوئی رشتہ نہیں ہے۔
آپ نہیں جانتیں ممی میں ان دونوں کے سامنے کس طرح گڑگڑاتا رہا تھا منتیں کرتا رہا تھا زندگی میں کبھی مجھے کسی کے سامنے اس طرح گھٹنے ٹیکنے نہیں پڑے تھے مگر وہ دونوں اپنی ضد پر قائم تھے دونوں کا اصرار تھا کہ یہ سب وہ میرے لیے کر رہے ہیں اورمیں سوچتا تھا کہ اگر انھیں میرا اتنا خیال ہے میری خوشی ان کے لیے اتنی اہمیت رکھتی ہے تو یہ میری بات کیوں نہیں مان لیتے اور میں سوچتا تھا کہ ان دونوں کی خود غرضی نے آپ کو کس طرح سولی چڑھایا ہوگا آپ نے کس طرح وہ سب برداشت کیا تھا کیسے آپ نے اپنے ہوش و حواس قائم رکھے ہوں گے اور سانس لیتی ہوں گی۔
وہ دونوں انسان نہیں ہیں وہ جانور بھی نہیں ہیں کیونکہ جانور اتنے خود غرض اور منافق نہیں ہوتے جتنے وہ ہیں۔
میں نے سوچا تھا کہ شاید وہ دونوں اپنی ضد سے باز آ جائیں گے شاید انھیں آپ کا نہیں تو میرا ہی لحاظ آڑے آ جائے گا مگر ایسا کچھ بھی تو نہیں ہوا میں جب لاہور گیا تھا اور میں نے ثمن کو اپنے گھر میں دیکھا تھا تو میرے قدموں کے نیچے سے زمین نکل گئی تھی، وہ دونوں مجھے دیکھ کر یوں مسکرا رہے تھے جیسے انھوں نے بہت بڑا کارنامہ انجام دیا ہو اور میرا دل چاہ رہا تھا میں دونوں کو شوٹ کر دوں۔
آپ نے سوچا کہ میں نے ان دونوں کی شادی کروائی ہے آپ نے ایسا سوچا بھی کیسے، میں کیا اتنا ذلیل اور بے غیرت ہو سکتا ہوں، آپ کے لیے میں نے اخباروں میں اشتہار چھپوائے تھے آپ نہیں جانتیں میں نے کتنی دعائیں کی تھیں اللہ تعالیٰ سے، میں ان پندرہ دنوں میں ایک دن بھی ٹھیک سے نہیں سویا اور جوں جوں دن گزرتے جا رہے تھے ہر چیز سے میرا جی اچاٹ ہوتا جا رہا تھا پھر ایک دن اکبر کا فون آیا اور اس نے مجھے بتایا کہ اس تصویر سے ملتی جلتی ایک عورت اس کے پاس ہے مگر وہ اپنے بارے میں کچھ اور ہی کہتی ہے میں اس کے ساتھ چل پڑا تھا اور جب میں نے آپ کو وہاں زمین پر لیٹے دیکھا تو آپ نہیں جان سکتیں میری کیا حالت ہوئی تھی اور آپ نے تو حد کر دی مجھے اس طرح مارا کہ ابھی تک درد ہو رہا ہے کیا مائیں ایسا کرتی ہیں؟”
اگلی دوپہر وہ کھانے کی میز پر بیٹھا ساری رام کہانی سنا کر شکوہ کر رہا تھا، میں شرمندہ تھی کیا کہتی کیا جواب دیتی۔




*****

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!