Blog

Maat Title

پھر دن گزرنے لگے تھے میں طلاق کا زخم بھولنے لگی تھی، حدید نے مجھے ایک لڑکی کے بارے میں بتایا تھا جو ایک کالج میں لیکچرار تھی، ایک بہت ہی باحیثیت فیملی سے تعلق رکھتی تھی، فاریہ مجھے بھی پسند آئی تھی اور میں نے حدید کے ساتھ اس کی شادی طے کر دی تھی، حدید نے فاریہ کے گھر والوں کو اپنے بارے میں سب کچھ بتا دیا تھا، چونکہ فاریہ بھی اسے پسند کرتی تھی اس لیے اس کے گھر والوں نے سعد سے ملنے پراصرار نہیں کیا۔



حدید نے فاریہ کو شادی سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ وہ شادی کے بعد جاب نہیں کرے گی اور فاریہ نے بغیر کسی اعتراض کے یہ شرط قبول کی تھی وہ ایک بہت ہی تابعدار قسم کی بیوی ثابت ہوئی تھی حدید سے کافی ڈرتی تھی اور اس کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں کرتی تھی حالانکہ اس کے میکے والے بہت امیر تھے مگر پھر بھی وہ ہمیشہ حدید کے کہنے پر چلتی تھی، حدید کے دو بیٹے اور ایک بیٹی تھی، اسامہ، ولید اور کومل وقت بڑے سکون اور امن سے گزر رہا تھا سعد نے ایک دو بار حدید سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی تھی مگر حدید نے بہت بری طرح اسے رابطہ قائم کرنے سے منع کر دیا تھا۔
”آپ نہیں جانتیں ممی یہ شخص کتنا خود غرض ہے میں نے اسے کہہ دیا تھا کہ اگر وہ آپ کو طلاق دے کر اس عورت سے شادی کرے گا تو مجھے کھو دے گا تب اس نے پروا نہیں کی اب اسے اپنے کیے کا بدلہ وصول کرنا ہی پڑے گا، آپ مجھے مت کہیں کہ میں اس شخص سے ملنا شروع کر دوں۔”
اس نے ایک دفعہ میرے اعتراض پر کہا تھا۔
”میں اس شخص کا بیٹا ہوں اسی لیے چھوٹے دل کا ہوں، آپ کا بیٹا ہوتا تو شاید بڑے دل کا ہوتا پھر سب کچھ آپ کی طرح بھول جاتا مگر اب نہیں بھول سکتا نہ ہی انھیں معاف کر سکتا ہوں۔”
میں چپ ہو گئی تھی اور یہی بہتر تھا مگر میں بہت خوش ہوئی تھی اس بات سے کہ اب حدید سعد کے پاس نہیں جائے گا نہ ہی ثمن کے پاس۔
ساری زندگی ان دونوں کے لیے ایثار کرتے کرتے میں تھک گئی تھی اب اور ایثار نہیں کر سکتی تھی، کیا ملتا ہے اس ایثار سے اپنی ہر چیز دوسروں کو دے کر کیا حاصل ہوتا ہے کچھ بھی تو نہیں، میرے جیسے خالی دامن لوگ خالی دل بھی ہو جاتے ہیں، ہر ایک کو تو حدید نہیں ملتا نا، تو پھر ایک بار مجھے وہ مل گیا ہے تو میں اسے واپس کیوں لوٹاؤں۔
پھر اس دن ثمن نے فون کیا تھا۔
”کیسی ہو ایمن؟” اس نے پوچھا تھا۔
”میں ٹھیک ہوں تم بتاؤ کیوں فون کیا ہے۔” میں نے وقت ضائع کیے بغیر پوچھا تھا، چند لمحوں کے توقف کے بعد اس نے کہا تھا۔
”میں حدید سے بات کرنا چاہتی ہوں۔”
”مگر وہ تم سے بات کرنا نہیں چاہتا یہ بات تم اچھی طرح جانتی ہو۔”
”وہ میرا بیٹا ہے اس طرح کی باتیں کہہ دینے سے خونی رشتے نہیں ٹوٹتے۔” اس کی ڈھٹائی پر مجھے حیرت نہیں ہوئی تھی۔
”تمھیں حدید کی اب کیا ضرورت آن پڑی ہے۔ سب کچھ تو ہے تمھارے پاس دو شوہروں کی دولت، دو بیٹیاں، سعد جیسا شوہر پھر حدید کی کیا ضرورت ہے تمھیں۔”
میرا لہجہ نہ چاہتے ہوئے بھی طنزیہ ہو گیا تھا وہ چند لمحے چپ رہی تھی پھر اس نے کہا تھا۔
”وہ میرا اکلوتا بیٹا ہے، ایک نہ ایک دن تو وہ میرے پاس ہی آئے گا۔”
میں نے فون بند کر دیا تھا۔
”نہیں ثمن اب وہ تمھارے پاس نہیں آئے گا، کبھی بھی نہیں آئے گا میں اسے جانے دوں گی تب نا۔” میں نے سوچا تھا۔
پھر اس نے ایک بار نہیں بار بار فون کیا تھا، بہت آہستہ آہستہ سہی مگر اس کے لہجے کا سارا طنطنہ رخصت ہو چکا تھا، وہ اپنی دونوں بیٹیاں بیاہ چکی تھی اور دونوں ہی بیرون ملک تھیں وہ دونوں اب تنہا تھے اسی لیے انھیں حدید کی یاد آتی تھی۔
ثمن نے ایک بار سعد کے ذریعے بھی مجھ سے یہی مطالبہ کرنے کی کوشش کی تھی کہ میں حدید کو اور اس کے بیوی بچوں کو ان سے ملنے کے لیے مجبور کروں، میں چپ چاپ سعد کی آواز سن رہی تھی وہ اسی طرح حکمیہ لہجے میں بات کر رہا تھا جیسے وہ کرتا تھا۔ مجھے پتا نہیں چلا کب حدید آ گیا تھا اس نے فون کا ریسیور مجھ سے لے لیا تھا اور سعد کی آواز سنتے ہی وہ آپے سے باہر ہو گیا تھا، اس کے جو دل میں آیا تھا اس نے سعد کو کہہ ڈالا تھا اور پھر ریسیور پٹخ دیا تھا۔
”ممی یہ شخص میرے اور آپ کے لیے مر چکا ہے پھر آپ اس کے فرمان کیوں سنتی ہیں آج کے بعد آپ اس شخص کا فون کبھی اٹینڈ نہیں کریں گی اور میں یہ بات دوبارہ نہیں کہوں گا۔”
یہ پہلا اور آخری حکم تھا جو آج تک حدید نے مجھے دیا تھا اور میں نے اس پر عمل کیا تھا۔




*****

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!