وہ خوبصورت تھی بے حد خوبصورت تھی بلکہ بعض دفعہ میں سوچتی تھی کہ کیا دنیا میں کوئی اس سے زیادہ خوبصورت بھی ہو سکتا ہے اور میرا میجک مرر مجھے ہمیشہ یہی بتاتا تھا کہ دنیا میں اس سے زیادہ خوبصورت کوئی نہیں ہے، ہر ایک کی آنکھوں میں اس کے لیے ستائش ہوتی تھی اور مجھے اس پر رشک آتا تھا وہ خوبصورت تھی اور اسے اپنی خوبصورتی کا استعمال آتا تھا، میرے جیسے لوگ اس کے مداح تھے، اس کے معمول تھے وہ جو چاہتی کروا لیتی، مجھ سے چھوٹی تھی اس لیے لاڈلی تھی میری اکلوتی بہن تھی اس لیے بھی مجھے پیاری تھی اور صرف مجھے ہی نہیں سب کو ہی میں امی، ابا سب اس کو آسائش دینے میں لگے رہتے۔
”ثمن کو یہ چاہیے ثمن کو وہ چاہیے، ثمن کو یہ پسند نہیں ثمن کو وہ پسند نہیں۔” یہ وہ جملے تھے جو ہر وقت گھر کے کسی نہ کسی فرد کی زبان پر رہتے اور ہم میں سے کوئی بھی اس کی مرضی کے خلاف کوئی بھی کام نہ کرتا، آہستہ آہستہ پورا گھر اس کی مرضی سے چلنے لگا، گھر میں ہر کام اس کی پسند کے مطابق ہوتا، ہر چیز اس کی پسند سے آتی اس کی مرضی کے مطابق رکھی جاتی۔ اور یہ صرف گھر پر ہی بس نہیں تھا وہ مجھے بھی اپنی مرضی اور ضرورت کے مطابق استعمال کرتی تھی گھر میں جو چیز آتی پہلے انتخاب کا حق ثمن کو دیا جاتا پھر میری باری آتی اور پھر پتہ بھی نہیں چلا اور میں ہمیشہ جو چیز بھی لاتی اس میں سے بہترین چیز ثمن کے لیے علیحدہ کرنے کی عادی ہو گئی، کبھی ایسا بھی ہوتا کہ اگر ایک جیسے جوتے یا کپڑے آتے تو ثمن اپنا سلوا کر خاص مواقع کے لیے محفوظ کر دیتی اور کسی عام سی جگہ پر جانے کے لیے بھی میرا والا سوٹ یا جوتا استعمال کرتی، مجھے کبھی اس پر اعتراض نہیں ہوا ہاں امی کو کبھی ہوتا تو وہ بڑے دھڑلے سے کہتی۔
”ہاں ایسے عام سے موقع پر اپنا سوٹ پہن کر خراب کر لوں۔”
”تو کیا ایمن کا خراب نہیں ہوگا۔” امی کہتیں۔
”اس کی خیر ہے اسے کون سا اتنا باہر آنا جانا ہوتا ہے۔”
میں ہمیشہ امی کو بات بڑھانے سے روک دیتی۔
”کوئی بات نہیں امی کچھ نہیں ہوتا۔” مجھے اس سے کبھی بھی کوئی شکوہ نہیں ہوا تھا یہ تو عام سی چیزیں تھیں میں تو ضرورت پڑنے پر اس کے لیے جان بھی دینے سے گریز نہیں کرتی مگر ایسا موقع کبھی آیا ہی نہیں۔
مجھے پتا ہی نہیں چلا کہ میری اس عادت نے کب اسے خود غرض بنا دیا کب اس نے میری ہر چیز ہر حق چھیننا عادت بنا لیا چونکہ مجھے اس سے کوئی حسد نہیں ہوتا تھا اس لیے تب بھی اعتراض نہیں ہوا جب میرے بچپن کے منگیتر سعد نے میری بجائے اس سے شادی پر اصرار کیا تھا۔
وہ میری خالہ کا بیٹا تھا باقاعدہ منگنی تو ہماری نہیں ہوئی تھی لیکن بچپن سے ہی ہر کوئی جانتا تھا کہ میری شادی سعد سے ہی ہوگی ہم دونوں میں آپس میں بہت ہی کم بات چیت ہوتی تھی بلکہ شادی ہی کبھی ہوئی ہو، وہ بہت کم گو تھا اور سنجیدہ بھی ہمارے گھر اس کا زیادہ آنا جانا نہیں تھا۔ شروع میں وہ پڑھائی میں مصروف رہا اور پھر بعد میں اس نے کاروبار شروع کر دیا تھا آہستہ آہستہ ان کے مالی حالات بہت اچھے ہو گئے تھے وہ ہماری طرح لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھتے تھے خالو واپڈا میں سپرنٹنڈنٹ تھے وہ دو بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا۔ اور MBA کرنے کے بعد اس نے کچھ دوستوں کے ساتھ مل کر امپورٹ ایکسپورٹ کا کام شروع کیا تھا وہ لیدر جیکٹس بنوایا کرتا تھا اور بہت کم عرصے میں وہ لوئر مڈل کلاس سے نکل کر اپر مڈل کلاس میں آ گئے تھے۔
جب امی نے مجھ سے سعد کی ضد کا ذکر کیا تھا تو چند لمحوں کے لیے تو میں بے یقینی کے عالم میں انھیں دیکھتی رہی پھر میں نے وہی کہا تھا جو میں ہمیشہ کہتی تھی۔
”کوئی بات نہیں امی اس میں حرج ہی کیا ہے۔”
اس بار امی نے مجھے بے یقینی سے دیکھا تھا۔
”وہ تمہارا بچپن کا منگیتر ہے۔” انھوں نے کہا تھا۔
”ہاں مگر اب وہ مجھ سے شادی نہیں کرنا چاہتا تو اسے مجبور تو نہیں کیا جا سکتا۔”
”ہاں مجبور نہیں کیا جا سکتا تو پھر وہ کہیں اور شادی کرے تم سے نہیں تو ثمن سے بھی نہیں۔” امی نے دو ٹوک انداز میں کہا تھا اور میں چپ ہو گئی تھی، شاک مجھے ضرور لگا تھا مگر میں نے ہمیشہ کی طرح خود پر قابو پا لیا میں مضبوط تھی اس لیے یہ صدمہ بھی برداشت کر گئی۔