”آپ ابھی تک سوئی نہیں ہیں۔” حدید اندر آ گیا تھا میں مسکرائی تھی۔
”تمھارے بیٹے کی فرمائشیں ختم ہوں تب سوؤں نا۔”
”یہ بھی نہیں سویا ابھی تک، کیوں اسامہ آپ اب تک کیوں جاگ رہے ہیں سوئے کیوں نہیں۔” اس نے گھر کنے کے انداز میں اپنے بیٹے سے کہا تھا۔
”بس پاپا سونے والا ہی تھا۔” اسامہ نے باریک سی آواز میں کہا اور آنکھیں بند کر لیں، حدید کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا تھا، اپنی کیپ اور چھڑی اس نے میرے بیڈ پر اچھال دی پھر شوز کے تسمے کھولنے لگا۔
”تھک گئے ہو چائے بنا دوں۔” میں جانتی تھی وہ اس وقت کسی ریڈ سے آیا ہوگا۔ اس نے کرسی پر نیم دراز ہوتے ہوئے کہا۔
”نہیں میں ملازم کو کہہ آیا ہوں، وہ چائے لا رہا ہوگا۔”
”اسامہ آپ ذرا سا آگے ہو جائیں۔” ایک دم وہ اٹھ کر بیڈ پر آ گیا اور اس نے اسامہ کو دھکیل کر آگے کر دیا۔
”اتنی محنت کرتی ہے پولیس پھر بھی پولیس کو برا بھلا کہا جاتا ہے راتوں کو جاگیں دن کو بھاگیں پھر بھی ہر کوئی پولیس میں کیڑے نکالتا ہے۔”
وہ آنکھیں بند کیے مجھ سے مخاطب تھا، پھر اچانک اس نے آنکھیں کھول دیں۔
”آپ Dentist کے پاس گئی تھیں۔” اچانک اس نے پوچھا تھا۔
”ہاں فاریہ کے ساتھ گئی تھی۔” میں نے مسکرا کر کہا تھا اس نے پھر آنکھیں بند کر لیں۔
”آپ کا کیا خیال ہے، اب کومل کو اسکول داخل کروا دینا چاہیے؟” وہ پھر آنکھیں بند کیے مجھ سے پوچھ رہا تھا۔
”نہیں بھئی ابھی تو وہ بہت چھوٹی ہے۔”
”مگر باتیں تو بہت کرتی ہے۔”
”باتوں کا کیا ہے وہ تو تم بھی بہت کرتے تھے، وہ بھی تمہاری طرح ہے۔” وہ میری بات پر بہت دلکشی سے ہنسا تھا مگر آنکھیں نہیں کھولی تھیں۔
”ٹائم کیا ہوا ہے ممی؟”
”تین بجنے والے ہیں۔” میں نے اسے بتایا تھا۔
”اب میں چائے نہیں پیؤں گا بس یہیں سو جاؤں گا، آپ لائٹ آف کر دیں اور صبح مجھے مت اٹھائیے گا، میں لیٹ اٹھوں گا، کل لنچ آپ بنائیے گا فاریہ یا ملازم سے مت بنوائیے گا۔ گڈ نائٹ ممی۔”
اس نے آنکھیں بند کیے ہی اپنا طویل پروگرام مجھے بتا دیا، میں نے اس کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرا تھا۔
”گڈ نائٹ۔” لائٹ آف کرنے سے پہلے ایک بار میں نے اس کا چہرہ دیکھا تھا وہ سو چکا تھا میں نے چادر اس کے اوپر پھیلا دی اور خود بھی سونے کے لیے لیٹ گئی۔
اور آج وہ کہہ رہی تھی کہ میں حدید سے کہوں کہ وہ اسے معاف کر دے اور آج وہ رو رہی تھی اور اب اسے حدید یاد آتا تھا وہ کہا کرتی تھی، میں چیزوں کو نہیں کھینچتی وہ خود میرے پاس آتی ہیں مجھ میں اتنی طاقت ہے اور اگر کوئی انھیں جانے سے روکنا چاہے تو روک کر دیکھ لے۔
”نہیں ثمن چیزیں تمھارے پاس اس لیے چلی جایا کرتی تھیں کیونکہ لوگ انھیں روکا نہیں کرتے تھے کیونکہ وہ تم سے محبت کرتے تھے مگر یہ سب کب تک ہوتا، ایک دن تو تمہارا جادو ختم ہونا ہی تھا اور وہ دن آ چکا ہے اب تم کس کس چیز کو بلایا کرو گی، کون سا حربہ استعمال کرو گی، کون سا اسم پڑھو گی، پچھلے پچیس سال ہر چیز کے ہوتے ہوئے میں نے تنہا گزارے تھے، اگلے پچیس سال تم اور سعد تنہا گزارو گے اگر زندہ رہ پائے تو، یہی مکافات عمل ہے۔”
*****