پھر ثمن میں حیرت انگیز تبدیلی آئی تھی۔ وہ بات بات پر جھگڑتی، لڑتی اور پھر رونے بیٹھ جاتی، پھر مجھے پتا چلا کہ وہ امی سے اس بات پر اصرار کر رہی ہے کہ وہ سعد کا رشتہ قبول کریں امی اس بات پر تیار نہیں تھیں اور وہ اتنی ہی بضد تھی پتا نہیں یہ سب مجھے اچھا لگا یا نہیں ہاں مگر مجھے یاد ہے کہ میں نے زندگی میں پہلی بار امی سے ضد کی تھی۔ اور اپنی بات منوا لی تھی۔
ثمن کی شادی سعد سے ہو گئی تھی۔ مجھے یاد ہے میری دوست عالیہ اس بات پر بہت دیر تک مجھ سے لڑتی رہی تھی۔
”تم پاگل ہو چکی ہو ایمن، تم واقعی پاگل ہو چکی ہو۔” اس نے جاتے جاتے مجھ سے کہا تھا اور میں نے جواباً کہا تھا۔
”فاطمہ اس سے کیا ہو جائے گا، میں پہلے بھی اسے اپنی چیزیں دیتی رہی ہوں اور اب بھی سہی۔”
”سعد کوئی چیز نہیں ہے سمجھیں تم، دیکھنا تم بہت پچھتاؤ گی جب لوگ یہ پوچھیں گے کہ اتنے سال منگنی رہنے کے بعد تمھارے منگیتر نے تمھیں کیوں چھوڑ دیا تو پھر کیا کہو گی، ثمن جیسے لوگوں کو خود غرض بنانے میں سب سے بڑا ہاتھ تم جیسوں کا ہوتا ہے سمجھیں تم۔”
”فاطمہ ویسے سعد کے ساتھ ثمن ہی سجے گی، ان دونوں کی جوڑی بہت خوبصورت لگے گی۔” میں نے بات بدلنے کی کوشش کی تھی۔
”بھاڑ میں جائے ان کی جوڑی اور تم بھی۔” وہ دروازہ پٹخ کر باہر چلی گئی تھی مگر مجھے تب بھی کوئی ملال نہیں ہوا۔
ثمن شادی پر بہت خوبصورت لگ رہی تھی یوں لگتا تھا جیسے وہ کسی اور دنیا سے آئی ہو میں نے خالہ کو اس طرف متوجہ کرتے ہوئے کہا۔
”دیکھیں خالہ وہ کتنی خوبصورت لگ رہی ہے۔” انھوں نے ایک نظر اسے دیکھا پھر مجھے دیکھا اور کہا۔
”ہاں وہ صرف خوبصورت لگتی ہے۔”
میں ان کی بات نہیں سمجھی تھی اور سمجھنا بھی نہیں چاہتی تھی سعد اس شادی سے بہت خوش تھا میں نے زندگی میں پہلی بار شادی کے موقع پر اسے قہقہے لگاتے دیکھا تھا اور اسے اتنا خوش دیکھ کر مجھے عجیب سی ندامت کا احساس ہوا تھا اگر مجھے یہ پتا ہوتا کہ مجھ سے پیچھا چھوٹ جانے پر وہ اتنا خوش ہوگا تو میں بہت پہلے یہ کام کر گزرتی۔
وہ دونوں بہت خوش تھے اور میں ان کی خوشی پر خوش تھی۔
سعدشادی کے بعد میرا سامنا کرنے سے کترایا کرتا تھا اور یہی حال میرا تھا، میں ان دونوں کو کسی مشکل لمحے سے دوچار نہیں کرنا چاہتی تھی۔ سو کوشش کرتی کہ ان سے زیادہ سامنا نہ ہو۔
پھر زندگی اپنے معمول پر آ گئی تھی۔ میں نے بی اے کرنے کے بعد ایک اسکول جوائن کر لیا تھا امی نے میرے کئی اچھے رشتے بھی معمولی سی خامی پر ٹھکرا دیے، حالانکہ میں ان سے کہنا چاہتی تھی کہ اب اتنی چھان بین کا کوئی فائدہ نہیں جب سعد نہیں تو پھر کوئی بھی سہی اچھا ہو یا برا اس سے کیا فرق پڑتا ہے، گزارنی تو زندگی ہی تھی اور وہ بہرحال گزر جاتی مگر میں امی سے یہ نہیں کہہ پائی۔
میں 24 سال کی ہو گئی تھی۔ زندگی آہستہ آہستہ گزرتی جا رہی تھی میری عمر بڑھانے والا ہر سال امی کی پریشانی میں اضافہ کر دیتا مگر میں کیا کر سکتی تھی نہ میں وقت کے پہیے کو روک سکتی تھی نہ امی کی پریشانی ختم کر سکتی تھی ہاں اگر میں کچھ کر سکتی تھی تو وہ صبر تھا اور یہ کام میں برسوں سے کر رہی تھی۔
دن ایسے ہی گزر رہے تھے جب اچانک ہماری زندگی میں بھونچال آ گیا تھا وجہ اس بار بھی ثمن ہی تھی، وہ سعد سے طلاق چاہتی تھی اور اس کی کوئی معقول وجہ اس کے پاس نہیں تھی اس کی شادی کو چار سال گزر گئے تھے ایک بہت خوبصورت بیٹا بھی تھا اس کا، سعد کا کاروبار ترقی کر رہا تھا گھر میں اس پر کوئی روک ٹوک نہیں تھی، سعد اس پرجان چھڑکتا تھا، پھر بھی وہ طلاق چاہتی تھی اور طلاق حاصل کرنے کے لیے وہ ہمارے پاس نہیں آئی بلکہ اپنی ایک دوست کے گھر اس نے رہائش اختیار کر لی وہ حدید کو بھی چھوڑ گئی تھی۔
سعد اور خالہ بے حد پریشان تھے اور ہم لوگ صرف پریشان نہیں تھے ہم پر تو جیسے گھڑوں پانی پڑ گیا تھا۔
ہزار دقتوں کے بعد سعد نے اس کی رہائش گاہ کا پتہ چلایا تھا مگر اس نے سعد سے بات کرنے سے قطعی طور پر انکار کر دیا اور اسی سلوک کا سامنا ہمیں کرنا پڑا جب سعد نے ہمیں اسے سمجھانے کے لیے بھجوایا تھا، پھر ہم ایک بار نہیں بیسیوں بار اسے سمجھانے کے لیے گئے تھے مگر اس نے ہمیشہ ہم سے ملنے سے انکار کر دیا اور آخری دنوں میں تو اس کا چوکیدار ہمیں دیکھ کر گیٹ بھی نہیں کھولتا تھا۔