پھر جب سعد نے اسے طلاق دینے سے انکار کر دیا تو اس نے خلع کا کیس کر دیا۔ سعد کی حالت ان دنوں پاگلوں جیسی تھی اس کا بسا بسایا گھر اجڑ رہا تھا اور وہ اس کی تباہی دیکھنے پر مجبور تھا، وہ دن میں تین تین بار ثمن کے گھر جاتا کہ شاید وہ اس سے بات کر لے شاید وہ اپنی خفگی کی وجہ بتا دے مگر وہ اس کے سامنے نہیں آئی وہ اس کے وکیل کے سامنے گڑگڑاتا منت کرتا کہ وہ اس سے پوچھیں کہ اس سے کیا غلطی ہوئی ہے اسے کیا چیز بری لگی ہے مگر اس کا وکیل ہمیشہ کہتا۔
”وہ کہتی ہے کہ وہ آپ کے ساتھ رہنا نہیں چاہتیں وہ آپ سے طلاق چاہتی ہیں۔”
اور پھر وہی ہوا تھا جو ثمن نے چاہا تھا سعد نے بہت کوشش کی تھی کہ کیس کو لٹکا دیا جائے مگر ایسا نہیں ہوا ثمن کے وکیل بہت نامی گرامی تھے۔ اور وہ پیسہ پانی کی طرح بہا رہی تھی۔
کیس کورٹ گیا اور سعد کے کردار کے بارے میں ثمن کے وکیل نے بے شمار باتیں کہیں، انھوں نے جھوٹے گواہوں کے ساتھ کورٹ میں ثابت کر دیا کہ سعد ایک بدکردار شخص ہے جو بیوی کو مارتا پیٹتا ہے، اور اس کی کوئی ذمہ داری پوری نہیں کرتا اور اپنی بیوی کو مجبور کرتا ہے کہ وہ اپنے میکے سے روپے لائے اور وہ ثمن کے کردار پر شک بھی کرتا ہے ایسے شخص کے ساتھ کوئی عورت نہیں رہ سکتی۔
میں جانتی تھی سعد ایسا نہیں ہے وہ ایسا ہو ہی نہیں سکتا میرے گھر والے جانتے تھے کہ یہ سب غلط ہے مگر عدالت میں اس کے خلاف گواہ موجود تھے، ثبوت تھے اور ثمن بس ایک بار کوٹ میں آئی تھی اور اپنی لاجواب اداکاری سے اس نے سب کو ہرا دیا تھا، آنکھوں میں ہلکی ہلکی نمی لیے آنکھیں جھکائے بکھرے بالوں اور لرزتی آواز کے ساتھ اس نے اپنے بیان سے کیس جیت لیا تھا۔
کورٹ نے اس کے حق میں فیصلہ دے دیا تھا اور اب ہمارے کرنے کو کچھ نہیں رہا تھا، سعد فیصلہ سن کر وہیں عدالت میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا تھا مگر ثمن کسی کو دیکھے بغیر ان ہی لوگوں کے ساتھ واپس چلی گئی تھی جن کے ساتھ وہ آئی تھی تب کسی کی سمجھ میں نہیں آیا تھا کہ اس نے ایسا کیوں کیا؟
”پچھلے ایک سال سے وہ بہت عجیب ہو گئی تھی، معمولی باتوں پر سعد سے جھگڑتی اس نے سعد سے بے تحاشا فرمائشیں شروع کر دی تھیں، سعد ان سب باتوں سے پریشان تھا، مگر پھر بھی وہ اس کی ہر بات مان لیتا تھا۔ کچھ عرصہ پہلے اس کے پارٹنر نے اپنا بزنس الگ کر لیا تھا سو اسے مالی طور پر کچھ نقصان برداشت کرنا پڑا تھا، پھر ثمن جو فرمائش کرتی اس نے بھی مالی طور پر اسے کافی نقصان پہنچایا تھا، پہلے وہ جتنا جیب خرچ اسے دیتا وہ اس پر ہی بہت خوش تھی کیونکہ وہ اس کی ضرورت سے زیادہ ہوتا تھا مگر اب وہ جتنا بھی دیتا وہ خوش نہ ہوتی بلکہ ہر دو چار دن کے بعد کسی نہ کسی بہانے وہ مزید روپوں کا مطالبہ کر دیتی۔
وہ ہر وقت گھر سے باہر رہتی تھی اور حدید پر بھی اس کی توجہ کم ہو گئی تھی مگر ہم نے یہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ وہ اس طرح کرے گی۔”
خالہ نے خلع کے بعد ہمیں بتایا تھا حدید بہت چھوٹا تھا اور خالہ اسے سنبھال نہیں پاتی تھیں سو وہ اسے ہمارے گھر چھوڑ گئیں ہم لوگ خالہ اور سعد سے نظر ملانے کے قابل نہیں رہے تھے بلکہ ہم تو کسی کا بھی سامنا نہیں کر سکتے تھے۔ ہر آنے والا یہی تذکرہ چھیڑ کر بیٹھ جاتا اور ہماری ندامت میں اضافہ کرتا جاتا۔
ثمن نے خلع کے بدلے سب کچھ چھوڑ دیا تھا۔ جہیز کا سامان حق مہر حتیٰ کہ حدید کو بھی، وہ دو سال کا تھا اور ہر وقت روتا رہتا تھا مجھے اس پہ بے تحاشا ترس آتا اور میں سارا دن اسے اٹھائے پھرتی اس کی وجہ سے میں نے اسکول بھی چھوڑ دیا۔ آہستہ آہستہ وہ مجھ سے مانوس ہو گیا مجھے اس سے اس لیے محبت تھی کہ وہ ثمن اور سعد کا بیٹا تھا اور اس لیے بھی کہ اس نے ماں کے ہوتے ہوئے بھی اسے کھو دیا تھا۔
میں جب بھی اس کا چہرہ دیکھتی، مجھے ثمن یاد آ جاتی، وہ بالکل اس کی کاربن کاپی تھا صرف رنگت کا فرق تھا ثمن سرخ و سفید تھی تو حدید سعد کی طرح گندمی رنگت کا تھا۔
”ہم نے سعد سے تمھارے نکاح کا فیصلہ کیا ہے۔”
خلع کے ایک ماہ بعد ایک رات امی نے مجھ پر قیامت توڑی تھی۔
”جتنی ذلت اور رسوائی سعد کو ثمن کی صورت میں برداشت کرنی پڑی ہے اس کا واحد حل یہ ہے کہ میں تم سے اس کی شادی کروا کر ان داغوں کو ختم کر دوں جو ثمن نے اس کے کردار پر لگائے ہیں، لوگ سعد کے بارے میں جو شبہات رکھنے لگے ہیں وہ ختم ہو جائیں گے تمھارے علاوہ حدید کی زندگی تباہ ہو جائے گی آخر شادی تو اسے کرنی ہی ہے تو پھر تم سے کیوں نہیں، پھر تمہاری خالہ اور سعد بھی یہی چاہتے ہیں۔”
”سعد بھی یہی چاہتا ہے۔” میں نے سوچا تھا اور ہاں کر دی تھی۔
”ہاں واقعی حدید کو میرے علاوہ اور کون چاہ سکتا ہے؟” میرے ذہن سے ابھرنے والی دوسری سوچ حدید کے لیے تھی۔
میں نے زندگی میں کبھی کوئی مشکل کام نہیں کیا تھا (یہ میرا خیال تھا) اور میں نے سوچا تھا کہ اب مجھے ایک مشکل کام کرنا پڑے گا۔ سعد کو یہ یقین دلانا تھا کہ میں ثمن کی طرح نہیں کروں گی میں ثمن سے بہتر ہوں مجھے اس کے دل میں اور اس کے گھر میں اپنی جگہ بنانی تھی مگر مجھے یہ مشکل کام کرنا ہی نہیں پڑا جس سعد سے میری شادی ہوئی تھی عورت پر سے اس کا اعتبار اٹھ چکا تھا اور میں بھی عورت تھی پھر ثمن کی بہن تھی یہ میری ذات کو اور بھی ناقابل یقین بناتا تھا اور سب سے بڑی بات یہ تھی کہ میں اس کی وہ سابقہ منگیتر تھی جسے وہ ٹھکرا چکا تھا۔