”کچھ نہیں بس سعد کو غصہ آ گیا تھا۔” میں نے ان کے استفسار پر بغیر ان کی طرف دیکھے جواب دیا تھا، میرے دل میں تب بھی سعد کے خلاف غصہ پیدا نہیں ہوا، میں جانتی تھی وہ صدمے کے عالم میں تھا اظہر اس کے لیے آستین کا سانپ ثابت ہوا تھا، یہ چیز اسے برداشت نہیں ہو رہی ہوگی کہ اس کے اعتماد کا خون کیا گیا تھا، اور یہ سب اس کی ناک کے نیچے ہوا تھا اور اسے پتا نہیں چلا۔
پہلے عورت سے اس کا اعتماد اٹھا تھا پھر دوستی سے بھی اٹھ گیا میرے لیے زندگی پہلے بھی آسان نہیں تھی۔ ثمن کی شادی کے بعد اور بھی مشکل ہو گئی، سعد کا کاروبار کافی خراب حالت میں تھا،اس لیے اس نے کاروبار میں سرمایہ لگانے کے لیے گھر بیچ دیا۔ ہم تین کمروں کے ایک کرائے کے فلیٹ میں شفٹ ہو گئے سعد نے اپنی گاڑی بھی بیچ دی، مجھے اپنا زیور بھی بیچنا پڑا، بہت سے اخراجات میں ہمیں کمی کرنی پڑی مگر مجھے سعد سے کبھی کوئی شکوہ یا شکایت نہیں ہوئی، جو ہو رہا تھا وہ میری تقدیر میں تھا یہ میں سوچتی تھی۔
سعد کو کسی چیز پر اعتبار نہیں رہا تھا سارے رشتے اس کے لیے بے معنی ہو چکے تھے۔ میری ذات میں اسے پہلے ہی کوئی دلچسپی نہیں تھی مگر ثمن کی شادی کے بعد وہ خالہ اور حدید سے بھی بے نیاز ہو گیا تھا اسے خالہ سے یہ شکایت تھی کہ انھوں نے ثمن پر نظر کیوں نہیں رکھی مگر خالہ اسے یہ سمجھانے سے قاصر تھیں کہ اس نے خود انھیں ثمن پر کوئی پابندی لگانے سے منع کر دیا تھا، اور اب وہ انھیں ہی قصوروار ٹھہراتا تھا۔ اسے حدید میں بھی کوئی دلچسپی نہیں رہی تھی۔ پہلے وہ کبھی اسے اٹھا لیا کرتا تھا اس کے ساتھ کھیلا کرتا تھا مگر ثمن کی شادی کے بعد جیسے اس کی پوری زندگی بدل گئی تھی۔ وہ رات دیر گئے گھر واپس آتا اور صبح سویرے چلا جاتا اور بعض اوقات تو وہ دو دو دن گھر نہ آتا، میں جانتی تھی کہ وہ اپنا سارا وقت اپنے کاروبار کو دیتا ہے اس لیے مجھے اس کے ان معمولات پر اعتراض نہیں ہوتا تھا اور اگر ہوتا بھی تو اس کا کیا فائدہ ہوتا، میں کسی بھی طرح اس پر اثر انداز نہیں ہو سکتی تھی۔
وقت ایسے ہی گزر رہا تھا میری توجہ اور دلچسپی کا واحد مرکز حدید تھا اس کے علاوہ میرے پاس کچھ نہیں تھا نہ ہی آئندہ کچھ آ سکتا تھا شادی کے فوراً بعد ہی سعد نے مجھ پر واضح کر دیا تھا کہ وہ اب کوئی اولاد نہیں چاہتا اس کے لیے حدید ہی کافی ہے۔
زندگی میں پہلی بار میں نے اس بات پر اعتراض کیا تھا لیکن اس نے اتنی بری طرح مجھے جھڑکا تھا کہ میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی۔ میرے آنسوؤں نے اسے مزید بھڑکا دیا تھا اس نے کہا تھا۔
”یہ حربے مجھ پر استعمال نہ کرو یہ ڈراما بند کرو۔”