وہ نہیں جانتا تھا کہ میں حربے استعمال کرنے والوں میں سے نہیں ہوں یہ ہنر آتا ہوتا تو میری زندگی اتنی ناکام نہ ہوتی مگر خیر میں اسے کیا سمجھا سکتی تھی صرف خود کو سمجھا سکتی تھی سو میں نے خود کو سمجھا لیا۔
میں نے حدید کو کسی انتقامی جذبے کا نشانہ نہیں بنایا۔ اس کا فائدہ ہی کیا ہوتا جیسے میں کسی اور کی غلطی کی سزا کاٹ رہی تھی وہ کیوں کاٹتا۔
پھر آہستہ آہستہ زندگی قدرے بہتر ہو گئی تھی۔ سعد کا کاروبار بہتر ہونا شروع ہو گیا تھا اب وہ زیادہ باہر نہیں رہتا تھا، حدید کے ساتھ بھی اس کا رویہ ٹھیک ہو گیا تھا اور خالہ سے بھی اس کے گلے ختم ہو گئے تھے۔ مگر اگر کسی سے بے التفاتی کم نہیں ہوئی تھی تو وہ میں تھی اور مجھے اس سے کوئی توقع نہیں تھی میری ذات کا محور تو حدید تھا وہ میرا سب کچھ تھا، میرا دوست، میرا بیٹا، میرا ساتھی، میرا ہم راز، میرا غمگسار، میرا ہمدرد سب کچھ وہی تھا میں اپنی ہر بات اسے بتاتی جب اسے سلا رہی ہوتی یا اس کے ساتھ کھیل رہی ہوتی، اسے میری کسی بات کی سمجھ نہیں آتی تھی۔ مگر مجھے لگتا جیسے وہ سب سمجھ رہا ہے۔
وہ واحد شخص تھا جو مجھ سے واقعی محبت کرتا تھا مجھے دیکھ کر جس کی آنکھوں میں چمک آتی تھی جو میرا لمس پا کر چلا آتا تھا اسے ہر کام میں میرا سہارا چاہیے ہوتا تھا میرے بغیر وہ کھانا تک نہیں کھاتا تھا، اور جب تک سب کچھ ایسا تھا مجھے کسی اور چیز کی تمنا نہیں تھی۔
خالہ اس سے میرا پیار دیکھ کر کہا کرتی تھیں۔
”اس سے ایسے ہی محبت کرتی رہنا دیکھنا تمھیں اس سے کتنا سکھ ملے گا یہ تمھیں رانیوں کی طرح رکھے گا۔”
میں ان کی بات پر گیلی آنکھوں سے ہنس دیتی۔
جب تک خالہ زندہ تھیں وہ میرے لیے بہت بڑا سہارا تھیں سعد مجھے ہمیشہ میری ضرورت سے کم روپے دیتا اور میں کبھی اس سے زیادہ کا مطالبہ نہ کرتی جب اس کا کاروبار بہت اچھا ہو گیا تھا تب بھی وہ مجھے پہلے جتنی رقم ہی دیتا تھا اور میرے لیے اس لگی بندھی رقم میں گھر چلانا کافی مشکل ہو جاتا تھا، تب خالہ میرے کام آتی تھیں سعد انھیں کافی روپے دیتا رہتا تھا اور وہ یہ سارے روپے مجھے دیتی رہتیں۔ پھر وہ کچھ عرصہ بیمار رہنے کے بعد وفات پا گئیں گھر ایک دم سونا سونا لگنے لگا تھا۔
وہ مرنے سے پہلے سعد کو بہت نصیحتیں کرتی رہی تھیں، اور ان سب نصیحتوں کا اثر ہوا ہو یا نہ ہوا ہو مگر یہ ضرور ہوا کہ اس نے مجھے میری ضرورت کے مطابق روپے دینے شروع کر دیے اور اکثر بغیر مانگے بھی وہ مجھے روپے دیتا رہا۔
کچھ عرصہ کے بعد میری امی کا بھی انتقال ہو گیا تھا باقی سب رشتہ داروں سے میں سعد کی وجہ سے پہلے ہی کٹ چکی تھی۔ سو اب بس حدید تھا جو میرا اکلوتا اثاثہ تھا وہ اسکول جانے لگا تھا اور جب تک وہ اسکول میں رہتا میں پورے گھر میں بولائی پھرتی، جب اس کے آنے کا وقت ہوتا تو میں گیٹ کے پاس چکر لگاتی رہتی اور جب وہ آ جاتا تو مجھے لگتا جیسے سب کچھ واپس آ گیا ہے۔جیسے ہر چیز اپنی جگہ پر آ گئی ہے وہ میرا تھا صرف میرا اس کی زبان پر اگر کسی کا نام آتا تو وہ میں تھی چہرے پر کسی کے لیے مسکراہٹ ابھرتی تو وہ میرا وجود تھا اردگرد کہیں بھی کوئی ثمن نہیں تھی۔ سعد بھی نہیں تھا بس میں تھی۔