Blog

Maat Title

حدید سعد سے زیادہ مانوس نہیں تھا ایسا کیوں تھا یہ میں نہیں جانتی حالانکہ وہ اس سے بہت محبت کرتا تھا، میرے ساتھ اس کا سلوک جیسا بھی تھا مگر حدید سے وہ واقعی محبت کرتا تھا صرف ثمن کی شادی کے کچھ عرصے بعد اس نے حدید سے بے اعتنائی برتی تھی مگر بعد میں وہ بے اعتنائی ختم ہو گئی تھی مگر حدید پھر بھی اس سے کچھ الگ ہی رہنا پسند کرتا تھا، اور یہ احساس کہ حدید کے لیے سب سے اہم میں ہوں میرے لیے بہت تسکین بخش تھا۔



ثمن کے بارے میں اس پورے عرصے میں مجھے کوئی خبر نہیں ملی تھی سوائے اس کے کہ وہ امریکا اپنے شوہر کے ساتھ چلی گئی تھی اور اس خبر نے مجھے بہت سکون دیا تھا اس نے کبھی حدید کے ساتھ کوئی رابطہ رکھنے کی کوشش نہیں کی اور مجھے کبھی کبھار اس بات پر حیرت ہوتی تھی مگر میرے لیے یہ بات سکون کا باعث بھی تھی کیونکہ اس سے رابطہ رکھنے کی صورت میں حدید مجھ سے اتنی محبت بھی نہ کرتا سو اچھا ہوا اس نے حدید کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں رکھا۔
حدید ماشاء اللہ بڑا ہو گیا تھا اس کا قد میرے برابر آ گیا تھا تب وہ نویں میں تھا اور وہ واضح طور پر ثمن سے مشابہت رکھتا تھا بس اس کی رنگت ثمن جیسی نہیں تھی۔ مگر اس کا مزاج ثمن جیسا ہی تھا وہ کافی بے صبرا تھا ہمیشہ یہی چاہتا تھا کہ میں ہر کام اس کی خواہش اور مرضی کے مطابق کروں اور میں… میں ویسے ہی کرتی۔
وقت گزرنے کے ساتھ سعد کا کاروبار ترقی کرتا جا رہا تھا روپیہ جیسے اب اس کے پیچھے بھاگ رہا تھا وہ جس کام کو ہاتھ لگاتا وہ اس کے لیے سونے کی کان بن جاتا اب ہم اس تین کمروں کے کرائے کے فلیٹ میں نہیں رہتے تھے بلکہ گلبرگ میں چھ کنال کے ایک بنگلے میں رہتے تھے۔ اب گھر میں تین تین گاڑیاں کھڑی رہتی تھیں گھر میںہر کام کے لیے نوکر تھے۔

میں ان سب چیزوں ان سب آسائشوں کو دیکھ کر سوچا کرتی تھی کہ یہ سب ثمن کا مقدر تھا اگر وہ کچھ انتظار کر لیتی تھوڑا صبر کر لیتی پھر کچھ بھی نہ بگڑتا اس کے غلط فیصلوں نے پہلے مجھے برباد کیا تھا پھر سعد کو بھی تباہ کر دیا، یہ آسائشیں میری تمنا نہیں تھیں یہ مجھے خوش نہیں کر سکتی تھیں، ثمن کی خواہش یہی چیزیں تھیں اور وہ یقینا انھیں پا کر خوش ہوتی، مجھے محبت کی چاہ تھی اور سعد کی بجائے کسی اور مرد سے شادی کرنے کی صورت میں وہ مجھے مل جاتی سعد کو ثمن کی ضرورت تھی اور اس کمی کو دنیا کی کوئی چیز پر نہیں کر سکتی تھی۔حدید جانتا تھا کہ میں اس کی ماں نہیں ہوں، میں نے اس بارے میں اس سے جھوٹ نہیں بولا تھا، ہاں مگر میں نے ثمن کے بارے میں اس سے کہا تھا کہ وہ مر چکی ہے کیونکہ سعد یہی چاہتا تھا، پتا نہیں کیوں مگر حدید نے کبھی اپنی ماں کے بارے میں مجھ سے زیادہ پوچھنے کی کوشش نہیں کی۔
اس کی اپنی زندگی تھی اپنی سرگرمیاں تھیں اور وہ ان ہی میں مصروف رہتا تھا۔وہ بہت Brilliant اسٹوڈنٹ تھا، اور جتنا قابل تھا اتنا ہی محنتی تھا۔
مجھے بچپن میں اسٹڈیز کے معاملے میں اس پر کافی توجہ دینی پڑتی تھی۔ مگر جوں جوں وہ بڑا ہوتا گیا وہ خود ہی اسٹڈیز کو بہت سنجیدگی سے لینے لگا میں چاہتی تھی وہ سول سروسز میں جائے مگر سعد یہ نہیں چاہتا تھا وہ اسے اعلیٰ تعلیم کے لیے باہر بھیجنا چاہتا تھا، اور چاہتا تھا کہ وہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد اس کا بزنس سنبھالے مگر حدید نے اپنی راہ خود چن لی تھی وہ پاکستان میں ہی اپنی تعلیم مکمل کرنا چاہتا تھا اور پھر سول سروس جوائن کرنا چاہتا تھا۔
”ماما میں آپ کے بغیر نہیں رہ سکتا اور ویسے بھی جب بعد میں یہیں رہنا ہے تو اب کیوں باہر جاؤں۔” اس کا جواب بڑا دو ٹوک تھا اور پھر سعد کے لاکھ کہنے اور چیخنے چلانے کے باوجود وہ باہر نہیں گیا۔
اس نے ایم بی اے کیا تھا اور پھر مقابلے کا امتحان پاس کر کے اس نے پولیس سروس جوائن کر لی تھی میں اس کے اس فیصلے سے بہت پریشان ہوئی تھی پولیس کی جاب میں ہمیشہ جان کا خطرہ رہتا تھا اور میں حدید کو کسی صورت گنوانے پر تیار نہیں تھی۔ میرے پاس اس کے علاوہ کچھ تھا ہی نہیں، مگر حدید میری بات ماننے پر تیار نہیں ہوا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!