مقابلے کے امتحان میں ٹاپ کرنے کے باوجود اس نے پولیس سروس ہی جوائن کی ان دنوں میں بہت خوش رہتی تھی وہ ٹریننگ کے لیے سہالہ میں تھا اور میں اپنے آپ کو ساتویں آسمان پر بیٹھے محسوس کرتی تھی۔ اب میں کوئی بے سہارا عورت نہیں رہی تھی اب میں سعد کی محتاج نہیں رہی تھی۔ میرا اپنا بیٹا میرا بوجھ سنبھال سکتا تھا میرے پاس میرا حدید تھا۔
اور پھر جیسے کوئی معجزہ ہو گیا تھا، بہت آہستہ آہستہ مگر آخر سعد کے وجود پر جمی ہوئی، برف پگھلنے لگی تھی۔ وہ پہلے کی طرح مجھے نظر انداز نہیں کرتا تھا مجھ سے گاہے بگاہے بات کرتا رہتا وہ خاموشی جو اتنے سالوں سے اس پر چھائی ہوئی تھی یک دم ٹوٹ گئی تھی وہ ہر بات میں تو نہیں مگر زیادہ تر باتوں میں میری رائے لینے لگا تھا میں یہ سوچنے لگی تھی کہ آخر میری محنت رنگ لے آئی تھی، میرا صبر رائیگاں نہیں گیا دیر سے سہی مگر میں اس کا دل جیتنے میں کامیاب ہو گئی تھی۔
وہ ڈیڑھ سال بہت اچھا گزرا تھا یوں لگتا تھا جیسے ہر چیز اپنے ٹھکانے پر آ گئی ہو جیسے دنیا ایک دم روشن ہو گئی، میں، سعد اور حدید، کیا دنیا میں اس سے بڑھ کر کچھ تھا، کم از کم میرے لیے نہیں تھا، کیا تھا اگر عمر کے اتنے سال ضائع ہوئے تھے کیا تھا اگر سب کچھ گنوایا تھا زندگی اتنی سی محبت کے سہارے بھی بڑے آرام سے گزاری جا سکتی تھی۔ جو مجھے ملی تھی۔
میں ان دنوں حدید کے لیے رشتے دیکھنے میں مگن تھی۔ وہ چھبیس سال کا ہو گیا تھا اور میں چاہتی تھی کہ اب اس کا گھر بس جائے۔ شادی کے معاملے میں اس کی اپنی کوئی پسند نہیں تھی یہ کام اس نے مجھ پر چھوڑ دیا تھا سعد ان دنوں ایک بزنس ٹرپ کے سلسلے میں امریکا گیا تھا اور وہاں سے واپس آنے کے بعد وہ بہت مصروف ہو گیا تھا ان ہی دنوں حدید کی اے ایس پی کے طور پر پہلی پوسٹنگ ہوئی تھی اور وہ ایبٹ آباد چلا گیا گھر ایک دم بہت سونا ہو گیا تھا۔
سعد اپنے کاموں میں مصروف تھا اور رات دیر گئے واپس آتا اور بعض اوقات تو اسے دو تین ہفتوں کے لیے باہر جانا پڑ جاتا تین چار ماہ اسی طرح گزر گئے تھے حدید ایک بار بھی گھر نہیں آ سکا وہ اپنی جاب میں اس قدر مصروف تھا کہ اسے فرصت ہی نہیں ملتی تھی۔ فون وہ مجھے اکثر کیا کرتا تھا اور ہر دفعہ جب میں اسے بلانے پر اصرار کرتی تو وہ مجھے اپنے مسائل بتاتا اور میں قائل ہو جاتی۔
پھر ایک دن اس نے مجھے فون کیا اور زیادہ تر سعد کے بارے میں ہی پوچھتا رہا، اس کا لہجہ بہت عجیب، بہت الجھاہوا تھا، مجھے لگا جیسے وہ کچھ پریشان ہے، مگر پریشان کیوں تھا یہ میری سمجھ میں نہیں آیا۔ میں نے سوچا شاید گھر سے دوری اس کا باعث ہے اس لیے میں نے اسے جلد از جلد گھر آنے کو کہا۔
”آؤں گا ممی آؤں گا آپ فکر نہ کریں۔”
اس نے کہا تھا اور دو دن بعد وہ اچانک صبح سویرے گھر آ گیا تھا وہ بغیر ہمیں بتائے اپنے کمرے میں جا کر سو گیا تھا۔
میں اس وقت سعد کو آفس کے لیے تیار کروا رہی تھی جب ملازم نے مجھے اس کے بارے میں بتایا تھا۔
میں فوراً اسے دیکھنا چاہ رہی تھی مگر پھر یہ سوچ کر دل پر قابو پا لیا کہ وہ اتنا لمبا سفر کر کے آیا ہے تھکا ہوا ہوگا۔ ہم لوگ اس وقت ناشتہ کر رہے تھے جب سفید کرتے اور بلیک جینز میں ملبوس وہ نیچے آ گیا تھا وہ بہت خاموش تھا مجھے اور سعد کو بہت گہری نظروں سے دیکھ رہا تھا ہمارے ساتھ اس نے ناشتہ کیا تھا پھر سعد جب آفس جانے لگا تو اس نے کہا۔
”مجھے آپ سے بات کرنی ہے۔ آپ ابھی آفس نہ جائیں۔”
اس نے سعد سے کہا تھا اور پھر وہ دونوں مجھ سے کچھ کہے بغیر اسٹڈی میں چلے گئے میں کچھ دیر تک ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھی رہی مگر پھر بے اختیار سی ہو کر میں ان کے پیچھے گئی تھی۔ اسٹڈی کا دروازہ پوری طرح بند نہیں تھا شاید حدید کوئی رازداری برتنا نہیں چاہتا تھا، اندر سے آنے والی آوازیں واضح تھیں۔
”تو آپ نے میری ماں کو طلاق کیوں دی؟”