Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

امر بیل ۔قسط۔ ۱۴۔ عمیرہ احمد

باب 39

اگلے چند ہفتے علیزہ کو ایک بار پھر ہاسپٹل کے چکر لگانے میں گزارنے پڑے۔ اسے اچانک اپینڈکس کا پرابلم ہوا اور بہت ایمرجنسی میں آپریشن کروانا پڑا آپریشن ٹھیک ہو گیا مگر گھر آنے کے دوسرے دن باتھ روم جاتے ہوئے گری اور اس کے ٹانکے ٹوٹ گئے۔
دوبارہ ٹانکے لگوانے کے بعد ایک ہفتہ تک وہ بخار میں مبتلا رہی۔ اس کا وزن بہت تیز رفتاری سے کم ہوتا رہا۔ اس تمام عرصہ کے دوران عمر سے ایک بار بھی اس کی بات نہیں ہوئی وہ اسپین جا چکا تھا اور وہاں سیر و تفریح میں مصروف تھا۔ جس شام تقریباً ایک ماہ کے بعد اس نے فون کیا۔ اس دن بھی علیزہ کو بخار تھا۔ نانو نے فون پر عمر کو علیزہ کے آپریشن اور اس کی بیماری کے بارے میں بتایا۔ اس نے علیزہ سے بات کرنے کی خواہش ظاہر کی۔
علیزہ فون پر اس کی آواز سنتے ہی رونے لگی۔ وہ اس کے رونے سے زیادہ اس کی آواز کی نقاہت پر پریشان ہوا تھا۔
”علیزے! علیزے! چپ ہو جاؤ یار کیا ہو گیا۔” وہ اسے کسی بچے کی طرح بہلانے لگا۔ وہ پھر بھی روتی رہی۔
”تمہارا آپریشن تو ٹھیک ہو گیا ہے نا؟” اس نے پھر بھی کوئی جواب نہیں دیا۔



”گرینی بتا رہی تھیں۔ تمہیں بخار ہے، زیادہ بخار ہے؟” وہ کسی نہ کسی طرح اسے خاموش کروانا چاہ رہا تھا۔ وہ اب بھی روتی رہی۔
”علیزہ ! مجھے تکلیف ہو رہی ہے تمہارے رونے سے ۔ پلیز چپ ہو جاؤ۔”
وہ چپ نہیں ہوئی۔
”مجھے بتاؤ میں کیا کروں؟”اس نے بالآخر تھک کر کہا۔
”میں نے آپ سے کہا تھا۔ آپ واپس آجائیں۔ آپ نہیں آئے۔ پتا نہیں ہر کوئی میرے ساتھ جھوٹ کیوں بولتا ہے۔” اس نے ہچکیوں اور سسکیوں کے درمیان کہا اور ایک بار پھر رونے لگی۔
”میں نے تم سے بالکل جھوٹ نہیں بولا۔ میں کل نہیں تو پرسوں جو بھی فلائٹ ملتی ہے، اس سے آجاتا ہوں اب تو رونا بند کردو۔” اس بار علیزہ واقعی چپ ہو گئی۔
”آپ سچ کہہ رہے ہیں؟”
”بالکل سچ کہہ رہا ہوں۔ میں بس آجاتا ہوں اگر تمہاری ضد یہی ہے تو ٹھیک ہے۔ میں تمہاری بات مان لیتا ہوں۔ اب مجھے بتاؤ تم کیسی ہو؟”
”میں ٹھیک ہوں۔” رونے سے اس کے سر میں درد ہونے لگا تھا۔
”میڈیسن لے رہی ہو؟”
”ہاں۔”
”اور کھانا”
”وہ بھی۔”
”تمہارے لئے کیا لے کر آؤں یہاں سے؟”
”پتا نہیں۔”



”ٹھیک ہے میں اپنی مرضی سے کچھ بھی لے آؤں گا۔ تم بس یہ کرو کہ میرے آنے تک اپنا بخار ختم کر دو۔ میں کم از کم تمہیں بستر میں دیکھنا نہیں چاہتا۔”
”نانو کہتی ہیں ، میں ہر وقت لیٹی رہوں، آپ کہتے ہیں، میں بستر میں نظر نہ آؤں۔ پھر میں کیا کروں؟” اس نے بے چارگی سے کہا۔
”تم اپنا بخار ختم کر دو تاکہ گرینی کو تم سے یہ کہنا نہ پڑے۔” وہ اب بھی بچوں کی طرح اسے بہلا رہا تھا۔
”آپ کل آجائیں گے؟” وہ اس کی بات کے جواب میں اس سے پوچھنے لگی۔
”کل یا پرسوں مگر آجاؤں گا۔” اس نے یقین دلایا۔
٭٭٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!