بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
دانہ پانی
قسط نمبر06
عمیرہ احمد
سجناں ولوں خط آیا کیویںکھولاں دس
کدھرے ایہہ نہ لکھیا ہووے تیری میری بس
مراد نے بندوق چلانے کے لئے لبلبہ دبانے کی کوشش کی تھی۔ وہ نہیں دبا ۔اُس کی نظر موتیا کے حلق پر رُک گئی تھی،جہاں اُس کی بندوق کی نالی تھی۔ اُس کی دودھیا حسین صراحی جیسی گردن کے اس گڑھے میں وہ چند دن پہلے تک پانی بھی حلق سے گزرتے دیکھ لیتا تھا۔ اب اُسے گولی ماردیتا تو اُس کا اُس ہی حلق سے ابلتا خون کیسے دیکھتا اور خون دیکھنے کی ہمت کر بھی لیتا تو اُسے تڑپتا کیسے دیکھتا۔ اور تڑپتا دیکھنے کے لئے دل پتھر کر بھی لیتا تو موتیا کو مرتا کیسے دیکھ لیتا۔ اُس کا دل چاہا وہ بھی بھاگ جاتی بالکل سعید بزدل کی طرح پر وہ تو بھاگی بھی نہیں تھی، وہیں کھڑی تھی، اُس کے سامنے… وہ بے وفا تھی اور ڈھیٹ بھی تھی یا پھر اُس کو یہ گھمنڈ تھا کہ وہ اُسے مار نہیں سکتا۔ اگر وہ گھمنڈ تھا تو ٹھیک تھا۔
اُس نے گولی نہیں چلائی تھی،بندوق کی نالی نیچے کرلی تھی۔ وہ نہ بھی کرتا تو بھی موتیا کو پتہ تھا وہ اُسے مار نہیں سکتا تھا۔ پر اُس نے شک بھی کیسے کرلیااُس پر۔ موتیا کو موت سے کہاں خوف آیا تھا،اُس شک نے لرزہ طاری کیا تھا اُس پر جو پیار کرنے والوں کے درمیان تو کبھی آتا ہی نہیں تھا۔
“جا موتیا تجھے دل سے اُتار دیا میں نے!”
مراد نے بندوق کی نالی ہٹاتے ہوئے اُس سے کہا تھا اور کسی نے جیسے موتیا کے دل میں گولی ماری تھی۔
ایک بار تو نے جان بچائی تھی میری، آج اُس ہی کے طفیل جان بخش دی میں نے تیری۔ بس اب تو میری نہیں رہی۔ جا جس کے ساتھ چاہے پھر جا زندہ رہ کے مر جا میرے لئے۔ مراد رُکا نہیں تھا، نہ اُس کا چہرہ دیکھنے کے لئے نہ اُس کا رونا اور بلکنا دیکھنے کے لئے، وہ بس پلٹا تھا اور تیز قدموں سے درختوں کے اُس جھنڈ سے نکل گیا تھا اور اپنے گھوڑے پر بیٹھ کر وہ رُکے بغیر سرپٹ گھوڑا بھگاتے حویلی کی طرف چلا گیا تھا اور موتیا وہیں گڑی رہ گئی تھی۔
“جا موتیا تجھے دل سے اُتار دیا میں نے!”
اُس کا جملہ کسی گولی کی طرح بار بار اُس کے وجود کو آکر لگ رہا تھا اور اُن لفظوں نے اُ س کے پورے وجود کو چھلنی کردیا تھا۔ جو پیار اُس نے مراد سے کیا تھا، ویسا تو کسی کے ساتھ نہیں کیا تھا۔ دنوں، ہفتوں میں اندھا پیار…ایسا پیار تو رب کے ساتھ ہوتاہے یا پھر رب کے کسی ایسے بندے کے ساتھ جس کے لئے انسان شرک کرنے لگتاہے۔ ساری حدیں پار کرکے نہ ادھر کا رہتا ہے، نہ اُدھر کا۔ رب کی تسبیح کرتے کرتے پیار کا کلمہ پڑھنے لگتاہے اور جب بندے کا کلمہ پڑھا جانے لگے تو پھر ٹھوکر تو لگتی ہے۔موتیا کو بھی لگی تھی پر سمجھ نہیں آئی تھی کہ کیوں لگی تھی۔
“جو مجھے مار نہیں سکتا وہ مجھے چھوڑ کیسے سکتاہے؟”
پتہ نہیں کتنی دیر وہاں بُت بنے کھڑے رہنے کے بعد موتیا نے سانس لینے کی جیسے پہلی کوشش کی تھی اور سانس لینے کی اُس کوشش میں اُس کا پورا وجود بے حال ہوا تھا۔ پتہ نہیں وہ سانپ کہا ں تھا جس نے خواب میںاُس کو کاٹنا تھااور اُس نے مرجانا تھا۔ وہاںکھڑے کھڑے اُسے اپنا خواب یادآیا اور وہ سانپ بھی اور وہاں درختوں کے جھنڈ میں نیم تاریکی میں اُس نے زمین پر کسی چیز کو ڈھونڈنے کی کوشش کی تھی۔ وہ آجاتا اُسے ڈس لیتا وہ مرجاتی اور بس اُس کی تکلیف تو ختم ہوجاتی جو مراد کے ایک جملے نے اُسے دی تھی۔ چاند کی چاندنی بھی وہیں تھی۔ مہکتی، سرسراتی، ہوا میں بسی آم کے بھور کی خوشبو بھی پر اب موتیا کو وہاں کچھ بھی نظر نہیں آرہا تھا۔ وہ جھنڈ سے اندھوں کی طرح چلتے ہوئے باہر آئی تھی۔ نہ اُس نے پگڈنڈی پر بکھری اُن چوڑیوں کو دیکھا تھا، نہ ہوا کی وجہ سے زمین پر ادھر سے اُدھر جاتے اپنے دوپٹے کو جس کو اگلا کوئی جھونکا کھیتوں میں اُڑ ا کر پتہ نہیں کہاں سے کہاں پہنچادینے والا تھا۔ اُس نے سعید کو تلاش نہیں کیا تھا، اُس نے بتول کو بھی نہیں ڈھونڈا تھا۔ مراد کے علاوہ اس وقت اُسے کچھ بھی نہیں سوجھ رہا تھا اور مراد وہاں نہیں تھا۔
٭…٭…٭