Blog

Dana-Pani-Ep-6

“چوہدری صاحب یہ پھولوں کا ہار موتیا نے بھیجا ہے۔ صبح آئی تھی میری طرف میں حویلی کے لئے نکل رہی تھی تو اس نے کہا کہ آپ کو یہ دے دوں۔” شکوراں نے ایک رومال میں لپیٹے ہوئے موتیے کے پھولوں کے اُس ہار کو دینے کے لئے چوہدری مراد کو اپنے کمرے کی طرف جاتا دیکھ کر روکا تھا۔اس کا خیال تھا مراد کا چہرہ کھل اُٹھے گاپر ایسا نہیں ہوا تھا۔
ا”سے باہر پھینک دو! مجھے موتیا اچھا نہیں لگتا اب۔” وہ کہہ کر رُکے بغیر اندر چلا گیا تھا اور شکوراں کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا تھا۔ چوہدری مراد کو موتیا پسند تھا یہ سب کو پتہ تھا اور اب موتیا کے ہاتھوں سے گندھا ہوا موتیا کا ہار پھینکنے کو کہہ رہے تھے وہ بھی جب ان کی شادی کی تیاریاں ہورہی تھیں۔ شکوراں کو سمجھ نہیں آئی تھی۔



” سن شکوراں سعید کا باپ آئے گا آج تیری طرف بتول کا رشتہ مانگنے۔ ہاں کردینا اور داج کی کوئی بات نہ کرنا ۔ وہ سعید کا باپ میرے اور چوہدری صاحب کے ساتھ کرے گا۔” تاجور کی آواز پر وہ یک دم پلٹی تھی جو باہر جانے کے لئے نکل رہی تھی پر تاجور کی بات پر جیسے اُسے شادیٔ مرگ ہوگیا تھا۔ وہ موتیا اور اس کے پھولوں کو بھی بھولی تھی اور مراد کے ردعمل کو بھی ۔
“چوہدرائن جی…” فرطِ جذبات سے اس کے منہ سے کوئی جملہ ہی نہیں نکل رہا تھا۔ وہ بس رونے لگی تھی۔
ا”چھا… اچھا بس کر اور یہ دے موتیے کا ہار مجھے میں کلائی میں ڈال لوں۔” تاجور نے کہتے ہوئے اس کے ہاتھوں سے وہ ہار لیا تھا اور اسے اپنی کلائی میں سوچے سمجھے بغیر ڈال لیا تھا اور باہر نکل گئی تھی۔ اس کے پاؤں خوشی کے مارے آج جیسے زمین پر پڑہی نہیں رہے تھے۔ نوکروں نے بھی بڑے دنوں بعد تاجور کو اتنا خوش دیکھا تھا۔
“سہ پہر تک آجاؤں گی میں واپس اور ان شاء اللہ آکر اچھی خبر سناؤں گی سب کو۔ “اس نے جاتے جاتے شکوراں سے کہا تھا اور شکوراں نے کوئی سوال جواب نہیں کیا تھا وہ بس لپکتے ہوئے اس کے پیچھے اس کو بگھی تک چھوڑنے گئی تھی جس میں چوہدری شجاع پہلے ہی بیٹھا ہوا تھا۔



٭…٭…٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!