Blog

Dana-Pani-Ep-6



وہ جس وقت حویلی واپس پہنچا تھا ،اُس وقت تاجور صحن والے برآمدے میں جلے پاؤں کی بلّی کی طرح چل رہی تھی۔ مراد کو آتا دیکھ کرجیسے اُ س کی سانس میں سانس آئی تھی۔ وہ گھوڑے کو باہر چھوڑ کر نہیں آیا تھا، اندر صحن میں لے آیا تھا۔ بندوق ہاتھ میں لئے وہ گھوڑے سے اُترا تھا۔ ماں سے نظریں ملائے بغیر وہ برآمدے میں کھڑی ماں کی طرف گیا تھا اور بندوق سمیت گھٹنوں کے بل اُس کے قدموں میں گرگیا تھا۔ تاجور کا دل ایک لمحہ کے لئے پتّے کی طرح لرزا تھا۔ وہ کسی کو واقعی قتل نہ کر آیا ہو۔اُس کو اندیشہ ہوا۔
“آپ جیت گئیں، میں ہارگیا امّی… موتیا بے وفا نکلی… آپ ماہ نور کے ساتھ شادی کرنا چاہتی ہیں میری، جب چاہیں کردیں… موتیا مرگئی میرے لئے۔”
اُس نے تاجور کے پیر پکڑ کر کہا تھا اور تاجور کے جلتے وجود پر اتنے ہفتوں بعد جیسے ٹھنڈا پھاہا رکھا تھا۔ ارے یہ تو وہی مراد تھا… اُس کا پیارا، جان قربان کرنے والا نورِ نظر۔ بھٹک گیا تھا اور اب سیدھے راستے پر بھی آگیا تھا۔ تاجور نے اُسے اُٹھا کر سینے سے لگایا تھا۔ اُس کا منہ اور ماتھا چوما تھا۔ چند گھنٹے پہلے جانے والے اور واپس آنے والے مراد کا چہرہ ایک جیسا نہیں تھا۔ اُس کی آنکھوں اور چہرے سے چمک اور خوشی غائب ہوئی تھی۔ پر کیا ہوا؟ وقت گزرے گا دل بہلے گا سب ٹھیک ہوجائے گا۔ چار دن کے پیار کا خمار گہرا ہوتاہے، پر ابدی نہیں۔ بندہ بھولنے پر آئے تو رب بھول جاتا ہے۔ یہ تو بس موتیا تھی۔ تاجور اُسے سینے سے لگائے اُسے تھپکتے اور خود کو تسلیاں دیتی رہی۔ اُس نے مراد سے اُس لمحے کچھ بھی نہیں پوچھا تھا۔ وہ کچھ بتانے کے قابل نہیں تھا اور وہ اُسے یہ تکلیف دینا بھی نہیں چاہتی تھی۔وہ اُس سے الگ ہوا، کچھ بھی کہے بغیر اندر چلا گیا۔ وہ بندوق تاجور کے پیروںمیں پڑی ہوئی تھی جسے وہ چند گھنٹے پہلے غیض و غضب میں لے کر گیا تھا وہ صرف پیار نہیں ہار کر آیا تھا، اپنی عزت، غیرت سب ہار آیا تھا۔ تاجور نے اُسے اُٹھا لیا۔اُس نے اپنا بیٹا،اپنا غرور، گھر، فخر سب بچالیا تھا پر پتہ نہیں کیا بات تھی، موتیاکے لئے اُس کے دل میں بھڑکنے والی آگ اب بھی ٹھنڈی نہیں ہوئی تھی وہ اب بھی کچھ مانگ رہی تھی۔ کچھ اور زہر… کچھ اور حسد… نفرت…انتقام… کچھ تو۔


٭…٭…٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!