Blog

Dana-Pani-Ep-6

بتول نے اپنی ہتھیلی پر رکھے ہوئے ان نوٹوں کو بے یقینی کے عالم میں دیکھا تھا۔ جو سعید کا باپ شگن کے طور پر اس کے ہاتھ پر رکھ رہا تھا۔ وہ تھوڑی دیر پہلے ہی آئے تھے اور مٹھائی کے ساتھ وہ سعید کے لئے اس کا رشتہ طے کرکے چلے گئے تھے اور ساتھ ہی شادی کی تاریخ بھی۔ وہ اُسی دن بیاہی جانے والی تھی جس دن موتیا کی بارات آنی تھی۔
“پتہ نہیں بتول کیا معجزہ ہوا ہے صبح سویرے کہ چوہدرائن نے سعید کے باپ کو اس طرح تاریخ طے کرنے بھیج دیا۔” شکوراں جو کچھ دیر پہلے ہی حویلی سے آئی تھی وہ جیسے خوشی سے نہال ہورہی تھی۔



“میں تو اب جلیبیاں بنوانے جارہی ہوں پورے گاؤں میں بانٹوں گی اور دیکھ تو بھی اب ادھر ادھر جانا چھوڑ دے بس چار دن ہی تو رہ گئے ہیں تیری بارات میں۔”
شکوراں بات کرتے کرتے کئی بار بے دم ہوئی۔ اسے ابھی سے کاموں کا سوچ سوچ کر فکر لاحق ہونے لگی تھی۔ یہ تو شکر ہے کہ داج کی ساری ذمہ داری تاجور نے اٹھالی تھی اور شکوراں کو اس کی فکر نہیں رہی تھی۔
” ارے تجھ سے ایک بات کرنا تو بھول ہی گئی۔ چوہدری مراد نے مجھے کہا کہ موتیا نے جو ہار بھیجا ہے وہ پھینک دو۔” شکوراں کو یک دم جیسے وہ بات یاد آئی جو وہ صبح سے بتول کو بتانے کا سوچ رہی تھی۔ بتول کے چہرے پر ایک رنگ آکر گزرا۔
“اور بتول آج چوہدرائن جی جب اپنے میکے سے ہوکر آئی ہیں تو بڑا کچھ ساتھ لے کر آئی ہیں۔ پتہ نہیں مجھے کیوں لگا کہ وہ کہیں چوہدری مراد کا رشتہ نہ طے کر آئی ہوں حالانکہ انہوں نے بتایا نہیں اور یہاں گاؤں میں ہر طرف چوہدری مراد اور موتیا کی شادی کی بات ہے سب کی زبان پر۔ لیکن اتنے دنوں میں کوئی تیاری نہیں شروع ہوئی حویلی میں۔ آج چوہدرائن جی اپنے میکے سے آئی ہیں تو آتے ہی انہوں نے تیاریاں شروع کردی ہیں ۔ تو ذرا موتیا کو کرید تو یہ چکر کیا ہے۔” شکوراں نے اس سے کہا تھا۔
“اماں چوہدری شجاع نے اگر چاچا گامو کو زبان دی ہے تو وہ نہیں پھریں گے۔ اور میں کیا پوچھوں موتیا سے؟ تیاری ہورہی ہے اس کے گھر بھی۔ اور یہ پھول پھینکنے والی بات موتیاسے نہ کرنا۔ سولڑائیاں ہوجاتی ہیں دو پیار کرنے والوں کی۔ میری اور سعید کی بھی تو ہوتی رہتی ہے لڑائی۔” بتول نے بڑے اطمینان سے ماں کو سمجھایا تھا اور شکوراں کو جیسے اس کی بات سمجھ میں آگئی تھی۔
” بالکل ٹھیک کہہ رہی ہے تومیں تو خوامخواہ ہی وہم اور شک کرنے بیٹھ جاتی ہوں۔ چوہدری صاحب نے زبان دی ہے تو کہاں پھرنا ہے انہوں نے اپنی زبان سے۔” اس سے پہلے کہ وہ دونوں میں کوئی اور بات ہوتی موتیا دروازے پر دستک دے کر اندر آگئی تھی۔ بتول کو اس کا پہلے ہی انتظار تھا ۔ سہ پہر ہورہی تھی اور وہ سہ پہر کے انتظار میں ہی بیٹھی رہی ہوگی جب بتول حویلی سے لوٹتی اور مراد کا جواب لے کر آتی۔
“ارے خالہ یہ مٹھائی وغیرہ کہاں سے آگئی۔ “موتیا پھل اور مٹھائی دیکھ کر جیسے کچھ حیران ہوئی تھی۔
“لے تو کھا تیری سہیلی کی بھی تاریخ طے ہوگئی سعید کے ساتھ۔” شکوراں نے خوشی سے بے حال خود ہی ایک لڈو نکال کر اس کے منہ میں ڈالنے کی کوشش کی تھی اور موتیا بھونچکا رہ گئی تھی۔ بتول شرمانے لگی تھی۔
“خالہ آپ سچ کہہ رہی ہیں؟ مذاق تو نہیں کررہی میرے ساتھ۔” وہ یک دم بہت ہی خوش ہوگئی تھی۔
” اپنی سہیلی سے پوچھ… سچ ہے کہ جھوٹ میں تو ذرا حلوائی کی طرف جارہی ہوں ۔ جلیبیاں بانٹنی ہیں گاؤں میں۔ “شکوراں اٹھ کر ہنستے ہوئے کھڑی ہوئی تھی اور موتیا بتول سے لپٹ گئی تھی۔
“میں نے کہا تھا نا تجھے بتول تیری شادی سعید سے ہی ہونی ہے۔ میں نے خود دیکھا تھا خواب میں۔” بتول اس کے ساتھ ہنستی رہی مگر وہ اب بھی اس سے نظریں نہیں ملارہی تھی۔



وہ رشتہ دوستی کی قیمت پر ہوا تھا۔ کوئی بتول کے اندر اب بھی پکار پکار کر کہہ رہا تھا پر بتول مجبور تھی۔ یہ دل بڑا کمینہ ہوتا ہے۔
“تو مراد سے ملی آج…؟ اس نے کیا کہا؟ اور اب تو جب اسے تیری اور سعید کی شادی کا پتہ چلے گا تو سارے شکوے شکایتیں اور شک دور ہوجانے ہیں اس کے۔” موتیا نے کہا اور اپنی بات پر جیسے خود ہی ہنس پڑی وہ جیسے تصور میں مراد کا شرمندہ چہرہ دیکھ رہی تھی۔
” ہاں میں ملی تھی چوہدری مراد سے اور میں نے بتادیا ہے انہیں سب کچھ۔ ناراض تھے بھی اگر پہلے تو اب نہیں ہیں۔” بتول اس سے نظریں ملائے بغیر اسے جلدی جلدی بتاتی چلی گئی اور موتیا کھکھلا کر ہنسی تھی۔
“تو پھر کب ملے گا وہ مجھے؟”
“ملنے کا تو نہیں کہا۔ کہہ رہے تھے اب شادی پر ہی ملیں گے دن ہی کتنے رہ گئے ہیں ۔ اور میں بھی سمجھتی ہوں ٹھیک ہی ہے یہ …تم دونوں پھر ملوگے پھر کوئی مسئلے والی بات ہوگئی۔ غصہ تو ہے چوہدری مراد کو کہ آدھی رات کو گھر سے نکلی کیوں چاہے کسی کو سمجھانے ہی ۔ پر یہ توپتہ ہونا چاہیے تھا نا اُسے۔” بتول جھوٹ بولتی جارہی تھی۔
“اسی لئے تو ملنا چاہتی تھی ایک بار اس سے۔” موتیا سنجیدہ ہوئی۔
“ضرورت نہیں ہے ۔ مرد کا غصہ آہستہ آہستہ ٹھنڈا ہوجاتا ہے اور یہاں تو زیادتی بھی چوہدری مراد کی ہے۔” بتول نے کہا تھا۔
” تو سچ کہہ رہی ہے نا کہ وہ ناراض نہیں مجھ سے۔” موتیا نے جیسے تسلی چاہی۔
“ناراض ہوتا تو شادی کی تیاریاں ختم کروادیتا ۔ تو چل کے دیکھ لے حویلی… کیسے دھوم دھام سے شادی کی تیاریاں ہورہی ہیںاور اب تو بھی گھر میں ٹک کر بیٹھ جا اور مجھےبھی بیٹھنے دے۔” بتول نے جیسے اس کے سامنے ہاتھ جوڑے تھے اور موتیا ایک بار پھر کھلکھلا کر ہنس پڑی تھی۔
“چل ٹھیک ہے پھر تجھ پر بھروسہ کرلیتی ہوں۔ خالہ سے پوچھنا تھا میرے پھولوں کا ہار لے لیا اس نے؟پروتے ہوئے تین بار سوئی لگی تھی انگلی میں۔” موتیا نے تجسس سے پوچھا تھا۔
“ہاں ہاں لے لیا! کیوں نہ لیتا؟ اس نے تو رکھ لیا تھا کمرے میں ۔ اماں کہہ رہی تھی سونگھ رہا تھا۔” موتیا کا چہرہ لال ہوا۔
“میرے لئے کچھ نہیں کہا؟”
“جو بھی کہا ہوگا اماں کو تھوڑی بتایا ہوگا وہ تو دل میں کہا ہوگا۔ اور تونے اماں کو کیوں دیا ہار مجھ کو بھی دے سکتی تھی۔” بتول نے عجیب سے انداز میں اُسے کریدا۔
” تو دیر سے جاتی خالہ تو صبح سویرے ہی چلی جاتی ہیں۔ تیرے جاتے جاتے موتیا مرجھا جاتا۔”
بتول اُسے دیکھتی ہی رہ گئی تھی ۔ وہ مٹھائی کے ڈبے سے ڈھیر ساری مٹھائی ایک پلیٹ میں ڈالنے میں مصروف تھی اور اس کا چہرہ یک دم ہی موتیا سے گلاب بن گیا تھا۔ بتول کے کانوں میں تاجور کی آواز گونجی تھی۔
“مراد کو اس کا کوئی پیغام نہیں دے گی تو اب۔ ماہ نور سے رشتہ طے ہوگیا ہے اس کا اور مراد کی بارات اب وہاں جائے گی۔”
“چوہدرائن جی موتیا کے ماں باپ تو اس کی شادی کی تیاریوں میں لگے ہوئے ہیں۔” بتول نے جیسے تاجور کو بتانا چاہا تھا کہ ان کے گھر انکار بھیجا جانا چاہیے۔
“تو کرتے رہیں۔ ان کی بیٹی کو بتاآیا ہے میرا بیٹا۔ اگر پھر بھی ضد ہے ان کی تو کرتے رہیں۔ “بتول عجیب سی کیفیت میں پھنسی تھی۔
“اور تجھے کیوں فکر ہے سہیلی کی؟ تو اب سعید اور اس کے گھر والوں کی فکر کر۔” تاجور نے ساتھ ہی معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ اس کا گال تھپکا تھا۔
“اور دیکھ بس چپ کوئی ایک لفظ کسی سے نہیں۔” تاجور نے جانے سے پہلے اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھ کے اُسے بتایا تھا اور بتول نے کسی معمول کی طرح سرہلادیا تھا۔
اور اب وہ مٹھائی کی پلیٹ بھرتی موتیا کو دیکھ رہی تھی جو اس سے کہہ رہی تھی ۔
“یہ ساری مٹھائی لے کے جارہی ہوں میں۔ اماں ابا کو کھلاؤں گی اور خود دو تین بار کھاؤں گی۔ اس دن کا کتنا انتظار تھا مجھے۔ “موتیا اب گنگنارہی تھی اور اس کی آواز بتول کو کسی آری کی طرح کاٹنے لگی تھی۔

مندری وچ نگ ماہیا
یار اساں سمجھدے رئے کھوٹا
نکلیا نگ ماہیا
بتول کے ہاتھ پاؤں جلنے لگے تھے ۔ وہ اگر شادی کی تیاری کرتی رہتی اور مراد کی بارات اس کے گھر نہ جاتی؟ یہ خیال نہیں تھا اُسے یقین تھا اب یہی ہونا تھا پر کیا اُسے موتیا کو سب کچھ بتادینا چاہیے تھا اور بتادیتی تو کیا کیا اور کس منہ سے؟
بس چپ کسی سے ایک لفظ نہیں۔
اسے تاجور کی ہدایت یاد آئی تھی اور اس نے جیسے اپنے کان اور دل دونوں بند کرلئے تھے۔



٭…٭…٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!