Blog

Dana-Pani-Ep-6

چاند نے رات کے اُس پہر مراد کی حویلی میں تاجور اور مراد کو بھی دیکھا تھا۔ وہ دونوں اپنے اپنے کمروں میں تھے۔ تاجور کی کھلی کھڑکی سے چاندنی نے جھانک کر اُسے اپنے بستر پر پر سکون گہری نیند میں دیکھا۔ غرور دل توڑ کر ہمیشہ گہری نیند سوتاہے۔
مراد اپنے بستر پر ٹانگیں زمین پر لٹکائے سر جھکائے بیٹھا تھا۔ چاندنی کھلی کھڑکی کی سلاخوں سے اُس کے کمرے میں بھی اُتر آئی تھی۔ وہ غمزدہ عاشق تھا۔ شک کر بیٹھا تھا اور اب اپنے دل کی کرچیاں لئے بیٹھا تھا جو جڑنے پر تیار ہی نہیں تھا۔ چاند حُسن کا حال دیکھ آیا تھا، اب عشق کا عالم دیکھنے آیا تھا۔



نئیں لنگدا وقت وچھوڑے دا
بن یار گزارا کون کرے
دُنیا توں کنارہ ہوسکدا
یاراں تو کنارہ کون کرے
اِک دن ہووے
دے لنگ جاوے بلھیا
ساری عمرگزارا کون کرے
وہاں بیٹھے بیٹھے مراد نے موتیا کو اپنی زندگی کے ہر صفحہ سے مٹانا شروع کررکھا تھا اور صفحے تھے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔ کھڑکی سے آتی چاندنی میں ڈوبا وہ غم کے عجیب اندھیروں سے چھٹکارا پانے کی کوشش کررہا تھا۔ موتیا بے وفا تھی اور اُس نے اُسے چھوڑ کر جینا تھا اور بس یہ آخر کے دو لفظوں نے سارا مسئلہ کھڑا کردیا تھا…جینا تھا… پر کیسے…مرنا ہوتا تو آسان تھا۔ وہ اُس ہی بندوق سے جان لے لیتاجس کی نالی اُس کی شہہ رگ پر رکھ کر وہ گولی نہیں چلا سکا تھا۔ یااُس ہی کنویں میں کود کر مرجاتا جہاں وہ پہلی بار موتیا سے ملا تھا۔ یا اُس ریل گاڑی کے آگے کود جاتا جس سے اُترتے ہوئے اُس نے موتیا کو پہلی بار دیکھا تھا۔ مرنے کے سو طریقے تھے پر اُس کے بغیر جینے کا کوئی ایک بھی طریقہ نہیں تھا… اور زندگی لمبی تھی… کم از کم وہاں بیٹھے اُسے لگ رہی تھی۔ اور وہ اب بس اُسے بھولنا چاہتا تھا اور بس بھولنا چاہتا تھا اور بس بھولنا چاہتا تھا اور بھولنے کے ایک ایک حرف پر وہ اُس کے دل میں کُھبی جاتی تھی،جونک کی طرح۔ وہ بے رحمی سے کھینچتا، وہ اُس کے وجود کو لہولہان کرتی الگ ہوتی کسی اور جگہ چپک جاتی۔ وہ کوئی بے بس کمزور مرد ہوتا تو بلک بلک کر روتا پھر اُسے معاف کرکے دوبارہ اُس کے سنگ ہولیتا۔ پر وہ اناپرست مردتھا جس کی رگوں میں تاجورکا خون دوڑتا تھا۔ وہ موتیا کے لئے ماں سے جنگ کرسکتا تھا تو موتیا کے لئے دل بھی مارسکتا تھا۔ پر وہ مرا ہوا دل پھر بھی اُس کے وجود میں آہیں بھر بھر کے کُرلا رہا تھا۔ اُسے بتارہا تھا کہ پیار ایسے نہیں مرتا خود اپنے ہاتھوں… یہ کبھی خودکشی نہیں کرتا…اُسے مارنے کے لئے ہمیشہ قاتل چاہیے جو کبھی وقت ہوتاہے کبھی رقیب …مراد بے حال بیٹھا تھا اور چاند کو اُس پر بھی ترس آیا تھا۔حسن اور عشق کو فنا ہے، پر اُن کی کہانی لافانی رہ جاتی ہے۔ حسن عشق کی بے نیازی اور کج ادائی نہیں سہہ سکتا، عشق حُسن کی بے وفائی برداشت نہیں کرسکتا۔ پر پھر بھی جب جب دونوں سامنے آتے بے اختیار ہوتے۔ دور ہوتے تو بھی ایک دوسرے کی یادوں کا طواف کرتے۔ بچھڑجاتے تو قصے ،کہانیاں، داستانیں چھوڑجاتے۔ پر یہ کبھی نہیں ہوا کہ حسن اور عشق ایک دوسرے کو بھول جاتے۔ اور اب یہ بیڑہ مراد نے اُٹھایا تھا۔ ناممکن کو ممکن کرنے کا۔ چاند کو اُس پر ترس آیا۔ وہ گونگا نہ ہوتا تو اُس سے کہتا کہ موتیا کو دل کے تخت سے اُتارے گا تو پھر تخت ہی نہیں رہے گا کسی دوسرے کو بٹھانے کے لئے، پر چاند تو گونگا تھا۔ موتیا کے لئے وہ چکور بن جاتا تھا، مراد کے لئے چور۔



٭…٭…٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!