Blog

Dana-Pani-Ep-6

” بابا جان آپ کو مجھ پر نہیں اپنے داماد پر تو بھروسہ ہے نا۔ ان سے پوچھ لیں مراد نے خود انکار کیا ہے یا میرے کہنے پر۔” تاجور نے پیر ابراہیم کے پاس آکر ماہ نور کے رشتے کی بات کا آغاز کیا تھا اور پیر ابراہیم یہ ماننے پر تیار نہیں ہورہے تھے کہ موتیا کہ کردار میں کوئی مسئلہ تھا جس کی وجہ سے مراد نے انکار کیا ہوگا۔ وہ خود گامو سے بات کرنا چاہتے تھے مگر تاجور اور ان کا بیٹا یحییٰ جیسے ان کی اس ضد پر جھلا گئے تھے اور بالا خر چوہدری شجاع نے مداخلت کی تھی۔
“تاجور ٹھیک کہہ رہی ہے ابا اجان! مراد اب موتیا سے شادی نہیں کرنا چاہتا۔ یہاں آنے سے پہلے میں نے اکیلے میں ایک بار پھر اس سے بات کی ہے۔ لیکن وہ نہ ٹھیک سے وجہ بتا رہا ہے نہ ہی موتیا سے شادی پر تیار ہے۔ اب ایسی صورت حال میں گامو سے بات کرنا بے کار ہے۔” چوہدری شجاع کی بات پر پیر ابراہیم کچھ نرم پڑے تھے مگر ان کی بے یقینی اب بھی کم نہیں ہوئی تھی۔



” یہی تو ابا جان… اگر مراد نہیں مان رہا تو ہم کیوں زبردستی کریں؟اس نے خود مجھے کہا ہے کہ آپ ماہ نور کے لئے رشتہ لے کر جائیں یہ صرف میری خواہش نہیں ہے۔” تاجور نے باپ کو کمزور پڑتے دیکھ کر کہا۔
“اور موتیا بھی ڈاکٹربن رہی ہے، وہ بھی کسی اونچے خاندان پر ہی ہاتھ مارے گی جیسے اس نے پہلے مارنے کی کوشش کی ہے ابا جان ۔ کوئی میرے مراد کے لئے جوگ تھوڑی لے لینا ہے اس نے۔” تاجور نہ چاہتے ہوئے بھی طنز کئے بغیر نہیں رہ سکی۔
” آپا ٹھیک کہہ رہی ہیں ابا جان۔ میری اپنی بھی یہی مرضی ہے کہ ماہ نور اور مراد کی شادی ہو ۔ خود ماہ نور بھی بہت پسند کرتی ہے مراد کو۔ اگر موتیا والا مسئلہ نہ ہوتا تو میں تو آپ سے بات کرتا کہ میری بیٹی کی یہ خواہش ہے کہ آپ آپا سے بات کریں۔” یحییٰ نے اب جیسے محاذ خود سنبھال لیا تھا۔ تسبیح کے دانے گراتے پیر ابراہیم ان سب کی باتیں سنتے رہے۔ انہوں نے کچھ بھی نہیں کہا تھا اور جب سب اپنی اپنی باتیں کرکے تھک کر خاموش ہوگئے تو انہوں نے کہا۔
“بڑی مشقت ہے ماہ نور کے نصیب میں یہاں شادی ہوئی تو… “اس سے پہلے کہ کوئی اور کچھ کہتا تاجور بولی تھی۔
“دُعا دیجئے ابا جان !بددُعانہیں۔ ”
پیر ابراہیم نے تاجور کا چہرہ دیکھا اور پھر سرہلادیا تھا۔ تاجور کا چہرہ کھل اُٹھا۔
“جو رب کی مرضی… جو اس کے فیصلے۔ ا”نہوں نے مدھم آواز میں انگلی آسمان کی طرف اُٹھا کر کہا تھا۔ باہر برآمدے میں دروازے کے ساتھ لگی ماہ نور کا چہرہ کھل اٹھا تھا۔ اس نے اپنے ہاتھ کی کلائی میں مہکتا وہ موتیا کے پھولوں کا ہار سونگھا تھا جو تاجور نے وہاں آتے ہی اپنی کلائی سے اُتار کر اُس کی کلائی میں پہنا دیا تھا۔



٭…٭…٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!