Blog

Dana-Pani-Ep-6

“کب سے گوٹا لگا رہی تھی اس دوپٹے پر اور دیکھو ادھر دوپٹہ بھرا اُدھر میری موتیا کے لئے شہزادہ آگیا۔” اللہ وسائی نے گوٹے کناری سے بھرا ہوا وہ سرخ دوپٹہ موتیا کے سر پر اوڑھاتے ہوئے کہا تھا۔
وہ اور گامو بیٹھے اس کے جہیز کی چیزیںایک ٹرنک میں رکھ رہے تھے جو گامو ایک دن پہلے شہر سے خرید کر لایا تھا۔ اتنے سالوں میں بس اتنا ہی جوڑ سکے تھے وہ کپڑے لتّے کے نام پر موتیا کے لئے اور چوہدری شجاع نے تو کچھ بھی دینے سے منع کردیا تھا گامو کو۔ بس سادگی سے نکاح کرنے کا کہا تھا۔ جو دھوم دھڑکا کرنا تھا وہ اپنی حویلی میں ہی کرتے اور گامو کسی دھوم دھڑکے جوگا تھا ہی نہیں۔


سامان رکھتے اور باتیں کرتے کرتے اللہ وسائی نے شادی کے جوڑے کو دوپٹہ موتیا کو اوڑھا دیا تھا اور موتیا شرما کر نظریں نیچی کرکے بیٹھ گئی تھی گامو اور اللہ وسائی نے جیسے نظروں ہی نظروں میں اس کی بلائیں لیں۔
” کیسا روپ آیا ہے خالی ایک دوپٹہ اوڑھنے سے بھی۔” اللہ وسائی تو جیسے قربان ہی جارہی تھی اور موتیا ماں کی تعریفوں پر شرما رہی تھی۔
” پر میں سوچتی ہوں حویلی والے کچھ نہیں لے کر آئیں گے؟ کوئی زیور، کپڑے، برّی … ”
اللہ وسائی نے اپنے اُس خیال کو آواز دی۔ جو اسے ہر روز آتا تھا۔ حویلی میں تاجور نے ان سے کوئی رابطہ ہی نہیں کیاتھا۔
” اب مجھے کیا پتہ ان کے رواجوں کا ہمیں کچھ بھی دینے سے منع کردیا تو شاید ان کے ہاں بھی کچھ بھی دینے کا رواج نہ ہو۔” گامو نے اندازہ لگایا۔
“ایسا تھوڑی ہوتا ہے گامو اور کچھ نہیں لڑکے والے ایک جوڑاتو لے ہی آتے ہیں اور کوئی زیور گہنا۔” اللہ وسائی مصر تھی۔
“میں بیٹی کا باپ ہوں۔ خود جاکے نہیں پوچھ سکتا چوہدری جی سے کہ کیا کیا لائیں گے ۔ کچھ لے آئے تو بسم اللہ ورنہ شادی کا جوڑا تو ہے ہی ہمارے پاس۔”
گامو نے جیسے دو ٹوک آوا زمیں کہا تھا اور موتیا ان دونوں کی باتیں سنتے ہوئے بس مسکراتے ہوئے چیزیں سمیٹ رہی تھی۔ کسی کپڑے اور گہنے میں اسے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ وہ مراد کی ہونے والی تھی۔ اس کانام اس کے نام کے ساتھ ہمیشہ کے لئے لگنے والا تھا۔ اس کے لئے اتنا کافی تھا۔ باقی سب اس کے لئے بے معنی تھا۔ لیکن اس ٹرنک میں پورے گاؤں کے لوگوں کی محبتیں اپنی اپنی حیثیت کے تحفے کے مطابق اس کے پاس آگئی تھی۔ موتیا چوہدرائن بننے جارہی تھی اور گاؤں والے خوش تھے یوں جیسے گاؤں کی حکومت ان کے اپنے ہاتھ میں آنے والی تھی۔ وہ سارے مل کر موتیا کی شادی کا انتظام کررہے تھے۔ بارات نے صرف شربت پینے رُکنا تھا ۔ کھانا نہیں کھانا تھا اور شربت کا خرچہ مٹھائی کے ساتھ گاؤں کے حلوائی نے اُٹھا لیا تھا۔ تنبو ، قناتوں والے نے بغیر پیسے لئے تنبو ، قناتیں دینی تھیں اور وہ گلاس بھی جن میں شربت بٹنا تھا۔ آس پڑوس کی عورتیں بستر بنانے میں مدد کے لئے روز آجاتی تھیں اور رات کو دیر گئے ڈھولک بجتی۔ جن میں گھر کے اندر عورتیں اور باہر گلی میں گامو مردوں کے ساتھ ناچتا۔ گاؤں میں ہر شادی ایسے ہی ہوتی تھی۔ بیٹیاں سانجھی ہوتی تھیں اور یہ تو موتیا تھی گاؤں والوں کی مسیحا اور راج دُلاری۔
تیاریاں حویلی میں بھی ہورہی تھیں اور بڑے زوروشور سے ہورہی تھیں لیکن دُلہن کا نام لئے بغیر ہورہی تھیں۔ تاجور ماہ نور کے لئے جو بھی خرید اور بنوا رہی تھی وہ گاؤں کی کسی عورت یا حویلی کے کسی ملازم کو دکھایا نہیں جارہا تھا۔ صرف ایک شکوراں تھی جو موتیا کے نصیب پر رشک کرتے ہوئے برّی کی چیزیں پیک کرکرکے رکھ رہی تھی اور ہر روز جیسے بتول کو ساتھ بتا بھی رہی تھی۔ تاجور نے ابھی تک شکوراں کو بھی یہ نہیں بتایا تھا کہ مراد کی بارات موتیا کے گھر نہیں جارہی تھی۔
اور جس دن اُس نے بالآخر شکوراں پر یہ راز کھولا تھا شکواں ہل کر رہ گئی تھی۔ وہ شادی سے ایک دن پہلے کا وقت تھا اور تاجورنے اُسے یہ بتانے کے بعد اس کے مزید کسی سوال کا جواب نہیں دیا تھا۔
“تو تو اپنی بیٹی کی شادی میں مصروف ہوگی تو تو کل مت آنا اور جس سوال کا جواب نہ آرہا ہو وہ بتول سے پوچھنا۔ تمہاری بیٹی تم سے کئی گنا زیادہ سمجھدار ہے شکوراں۔” شکوراں کو اس کی کسی بات کی سمجھ نہیں آئی تھی پھر وہ لپکتی جھپکتی گھر ضرور چلی آئی تھی جہاں بتول نے اُسے بھی تاجور کی طرح منہ بند رکھنے کا کہا تھا۔
“اماں داج بکھرا ہوا ہے پورے گھر میں اور تجھے موتیا کی پڑی ہے۔ سامان سمیٹ جلدی ابھی چاچا نے بندے بھیجنے ہیں پیٹیاں اور ٹرنک اٹھانے کے لئے۔” شکوراں بیٹی کے کہنے پر جلدی جلدی سامان سمیٹنے لگی تھی پر وہ اب بھی اُلجھی ہوئی تھی۔
“پر بتول گامو اور اللہ وسائی تو کل بارات کا انتظار کررہے ہیں پورا گاؤں اور برادری اکٹھی ہونے والی ہے وہاں۔ اگر بارات نہ آئی تو … ”
بتول بُری طرح جھنجھلائی تھی ۔
“اماں تجھے مجھ سے زیادہ موتیا کی پڑی ہے۔ میری بارات ہے کل میرا سوچ۔ چھوڑ موتیا کو۔”
شکوراں نے حیرانی سے اس کا چہرہ دیکھا تھا۔
“تیری بچپن کی سہیلی ہے وہ بتول ۔ اس کی بدنامی ہوئی تو تجھے بھی تو دُکھ ہوگا۔” شکوراں نے کہا تھا اور بتول کچھ خفیف سی ہوئی۔
” کیا پتہ عین وقت پر بارات موتیا کے گھر ہی جائے تجھے چوہدری مراد کا تو پتہ ہے نا وہ ضدپر اڑ جائے تو بس اڑ جاتا ہے۔” بتول نے ماں سے کہا تھا اور شکوراں اس کا چہرہ دیکھ کر رہ گئی تھی۔
“تو کہہ رہی ہے کہ ماہ نور سے شادی طے کروا کر بھی وہ آخری دن ماہ نور کی بجائے موتیا کو بیاہنے چلا جائے گا اور چوہدرائن جی ایسا ہونے دیں گی۔” بتول نے شکوراں کا چہرہ دیکھا وہ سوال نہیں تھا وہ جانتی تھی۔



٭…٭…٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!