Blog

Dana-Pani-Ep-6

“بتول کیا تو باہر ہے؟”
صحن میں پڑی چارپائی پر بیٹھی بتول ماں کی آواز پر ہڑبڑا کر چونکی تھی۔ وہ کنویں سے واپس آکر اندر کمرے میں نہیں گئی تھی، وہیں صحن میں چارپائی بچھا کر بیٹھ گئی تھی۔ اور اب شاید شکوراں نیند میں جاگی تھی۔ اس سے پہلے کہ بتول وہیں سے اُسے آواز دیتی، شکوراں باہر نکل آئی تھی۔
“تجھے آوازیں دے دے کے پاگل ہوگئی ہوں میں۔ کہاں تھی تو؟” شکوراں نے جمائی لیتے ہوئے اپنی بیٹی کو دیکھا جو صحن کے بیچوں بیچ چارپائی پر آلتی پالتی مارے بیٹھی تھی اور اُس کے گلے میں اُس کا دوپٹہ تک نہیں تھا۔


“کچھ نہیں اماں، یہاں باہر سونے کے لئے لیٹ گئی تھی۔ اندر دم گھٹ رہا تھا میرا۔”
بتول نے ماں سے کہا تھا اور چارپائی سے اُترنے لگی تھی۔
“یہ باہر کا دروازہ کیوں کھلا ہے؟”
شکوراں نے پتہ نہیں کیا وہم ہونے پر صحن کا دروازہ دیکھا تھا جو بھڑا ہوا تھا پر اُس کی زنجیر اُتری ہوئی تھی جو بتول لگانا بھول گئی تھی۔ اندر جاتی بتول ٹھٹکی تھی،پھر اُس نے وہیں کھڑے کھڑے ماں سے کہا۔
“تو چڑھانا بھول گئی ہوگی اماں… دروازہ تو تو ہی بند کرتی ہے۔”
اُس نے سفید جھوٹ بولا تھا۔
“کوئی آیا تو نہیں تھا…سعید؟”
شکوراں نے ایک لمحہ کے توقف کے بغیر اُس سے کہا ۔
“وہ دن کو آنے سے پہلے دس بار سوچتاہے، تو رات کا کہہ رہی ہے۔” بتول نے اُس ہی لہجہ میں ماں سے کہا۔
“تُو تو کہیں نہیں گئی؟”
شکوراں کو اب بھی تسلّی نہیں ہوئی تھی۔ پتہ نہیں اس بار ماں کے سوال پر بتول کو کیا ہوا تھا ۔ ایک لمحہ کے لئے اُس نے سوچا وہ ماں کو سب بتادے اور پھر اُس ہی لمحہ میں اس نے یہ ارادہ بھی چھوڑدیا۔
“اماں تو کیوں شک کرنے بیٹھ گئی ہے مجھ پر رات کے اس پہر…کہیں گئی ہوتی تو تجھے گھر ملتی… کہیں سے آئی ہوتی تو بھی آکے صحن میں بیٹھی ہوتی۔ عجیب ہے تو بھی۔ ”
اُس نے جھلّا کر شکوراں سے کہا تھا اور پھر جیسے اُس کی نظروں سے بچنے کے لئے وہاں سے چلی گئی تھی۔ شکوراں عجیب سی کیفیت میں وہاں کھڑی رہی تھی۔ چاند کی چاندنی اُس کے صحن میں دروازے سے چارپائی اور چارپائی سے اندر کمرے تک جاتے بتول کی چپل کے نشان دکھارہی تھی۔ اُس کی چپل کنویں کے آس پاس کی نم زمین سے گزرنے کے بعد گاؤں کی گلیوں سے ہوتے ہوئے بھی خشک نہیں ہوئی تھی۔ لیپے ہوئے صاف ستھرے صحن میں وہ ہلکے نشان جیسے چاند کو چشم دید گواہ بنا بیٹھے تھے اور اب وہ گواہ سارے بھید کھول رہا تھا۔ شکوراں پلکیں جھپکائے بغیر اُن نشانوں کو دیکھتی رہی، اُس نے سینے پر ہاتھ رکھ دیا تھا۔ اُس کی جوان لڑکی بغیر دوپٹے کے رات کے پچھلے پہر کس سے مل کر آئی تھی کہ ماں سے جھوٹ بولنا پڑگیا تھا اُسے۔ شکوراں کی نیند اُڑگئی تھی۔ جوان بیٹیوں کی ماؤں کی نیندیں بڑی کچّی ہوتی ہیں۔ پتہ نہیں وہ آج کیسے گہر ی نیندسوگئی تھی۔ اُس نے اپنے آپ کو کوسا پھر وہ چلتی ہوئی اندر کمرے میںآگئی تھی۔ اندر لالٹین کی روشنی میں اُس نے بتول کو اپنی چارپائی پر دوسری طرف منہ کئے لیٹا دیکھا تھا۔ وہ جیسے ماں کا سامنا نہیںکرنا چاہتی تھی۔ شکوراں اپنی چارپائی پر بیٹھ کر اُسے دیکھتی رہی۔
“اماں لالٹین بجھادے، مجھے روشنی میں نیند نہیں آرہی۔”
اُس نے شکوراں سے اُس ہی طرح منہ پھیرے ہوئے کہا تھا۔
“تیرا دوپٹہ کہاں ہے بتول؟”
بتول نے جواب میں شکوراں کو کہتے سنا اوروہ لیٹے لیٹے ساکت ہوئی تھی۔
“پتہ نہیں ہوگا ادھر ہی کہیں ، اب رات کے اس وقت دوپٹے ڈھونڈنے بیٹھوں میں؟” بتول نے چند لمحوں کے بعد جھنجلا کر سیدھا ہوتے ہوئے اُس سے کہا اور پھر اُٹھ کر لالٹین بجھا کر دوبار ہ آکر لیٹ گئی تھی۔ شکوراں اُس ہی طرح چارپائی پر بیٹھی رہی تھی۔ اُس کا دل ریل گاڑی بن گیا تھا، پتہ نہیں کیا کیا ہونے لگا تھا اُسے۔


٭…٭…٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!