“اب کیسی طبیعت ہے اُس کی؟”
اللہ وسائی نے موتیا کے انتظار میں دہلیز کے چکر کاٹتے کاٹتے رات گزاری تھی اور موتیا کو دیکھتے ہی اُس نے پوچھا تھا۔
“ہاں اب ٹھیک ہے۔ “
موتیا نے ماں سے نظریں ملائے بغیر گھر کے صحن میں آکر وہاں پڑے گھڑے سے پیالے میں پانی ڈال کر پیا تھا۔
“اللہ تیرا شکر ہے۔ “اللہ وسائی نے بے اختیار کہا۔
“میں صبح جاتی ہوں جاکر پتہ کرتی ہوں اُس کا۔”
موتیا نے ماں کی بات پر پانی پیتے پیتے چھوڑا۔
“نہیں اماں اب صبح ہی نہ چل پڑیں…ایسے ہی بتول پریشان ہورہی تھی۔ وہ ٹھیک تھیں بس وہم کرتی ہیں۔”
اُس نے ماں کو روکا ۔ اللہ وسائی نے بغور اُس کا چہرہ دیکھا۔
“تجھے کیا ہوا ہے؟ کیوں اتنا پانی پی رہی ہے؟” اُس نے موتیا کو غٹا غٹ ایک پیالہ پیتے ہی دوسرا پیالہ بھرتے دیکھ کر کہا۔
“پتہ نہیں گرمی زیادہ ہے، اس لئے۔” موتیا نے پیالے سے ہی ایک اوک میں پانی لے کر چہرے پر چھینٹے مارتے ہوئے کہا۔
“تیری چوڑیاں کہاں ہیں موتیا؟”
اللہ وسائی کو اُس کی خالی کلائیاں نظر آئی تھیں پھر اُس کے سینے پر بتول کا دوپٹہ۔ پانی پیتے ہوئے موتیا ٹھٹکی تھی۔
“بتول کے گھر اُتار کر رکھی تھیں اماں آتے ہوئے یاد ہی نہیں رہا۔”
اللہ وسائی نے عجیب حیران ہوکر موتیا کا چہرہ دیکھا۔ وہ جھوٹ بول ہی نہیں سکتی تھی اور یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ گامو اور اللہ وسائی اُس کے کہے پر بھروسہ نہ کرتے، پر اللہ وسائی حیران ہوئی تھی۔ وہ چوڑیاں کیوں اُتارنے بیٹھ گئی تھی اور دوپٹہ… اللہ وسائی نے کوئی او ر سوال نہیں کیا تھا۔ اُس نے خود ہی سوچ لیا تھا کہ غلطی سے بتول کادوپٹہ بھی اوڑھ کے آگئی ہوگی وہ۔
“چل موتیا سوجا اب تیرے لئے میں بھی بیٹھی رہی ہوں اب تک۔”
اللہ وسائی کہتے ہوئے اندر چلی گئی تھی اور موتیا وہیں گھڑے کے پاس پانی کا خالی پیالہ لئے بیٹھی رہی۔ پیالے کو تیسری بار پانی سے بھرتے ہوئے اُ س نے پانی میں چاند لہراتے دیکھا تھا۔ وہ جیسے اُس کے پانی کے پیالے میں اُتر آیا تھا۔ موتیا پانی پی نہیں سکی، وہ بس ہلتے ہوئے پانی میں اُس چاند کو دیکھتی رہی۔ وہ بچپن سے اُس ہی طرح چاند کو اپنے پیالے میں اُتار لیا کرتی تھی۔ وہ تتلیوں، جگنوؤں کے ساتھ ساتھ چاند بھی پکڑا کرتی تھی اور اب چاند اُس ہلتے ہوئے پانی میں ہلکورے لیتے ہوئے اُسے دیکھ رہا تھا اور اُس کی چاندنی جیسے مرہم بن کر اُس کے وجود کو لپٹ گئی تھی ،پر موتیا ویسے ہی درد سے بے سود تھی۔
وہ کیسے ایک پل میں یہ کہہ گیا تھا کہ اُس نے دل سے اُتاردیا، کوئی ایک بار دل کے تخت پر بٹھا کر اُتار کیسے سکتاہے اور وہ بھی میرا مراد ۔ اُس نے بہتے آنسوؤں کے ساتھ جیسے چاند سے پوچھا تھا، اور چاند گونگا ہوگیا تھا۔ بول سکتا تو اُسے دشمنوں کا بتاتا، پیٹھ میں چھرا گھونپنے والوں کا۔ پر چاند کو تو بس گواہ بننا آتا تھا، اُس سے زیادہ کچھ نہیں۔ موتیا کے بہتے آنسو اب پانی کے اُس پیالے میں گررہے تھے۔ میٹھے پانی کو نمکین کررہے تھے اور چاند کو غمگین۔
“میں اُسے منالوں گی، دیکھنا میں اُسے منالوں گی۔” اُس نے چاند سے کہا تھا۔
“میری غلطی ہے میں آدھی رات کو چل پڑی سعید کو سمجھانے۔ مراد نہیں کوئی بھی ہوتا تو شک کرتا۔ یہ سب دن میں ہوتا نا تو مراد کبھی شک نہ کرتا، پر آدھی رات کو کنویں پر اکیلے کوئی بھی جاتا دنیا کو شک میں ڈال دیتا۔”
وہ چاند کو تاویلیں اور وضاحتیں دے رہی تھی۔مراد کی شکایت کرکے پھر اُس ہی کا دفاع کرنے لگی تھی۔چاند چپ سنتا رہا۔ ایسے قصے، ایسی کہانیاں، ایسی باتیں، ایسے فسانے اُس نے صدیوں سے سُنے اور دیکھے تھے اور صدیوں تک دیکھنے تھے۔ پھر بھی وہ جیسے موتیا کہ ہمجولی بن بیٹھا تھا۔ یہ پوچھنے کے بجائے کہ مراد دنیا کیسے بن بیٹھا تھا، وہ اُس کے آنسو پی رہا تھا۔ اتنے سالوں میں اُس نے حسن کو بس روتے ہی دیکھا تھا اور عشق کو ہمیشہ خالی ہاتھ…یہ تو بس موتیا تھی جو اُس کو اپنے ہاتھوں میں اُتار لیتی تھی اور وہ اُتر آتا تھا۔ وہ اُس کے ہاتھوں میں چاند نہیں اُس کا چکور بن جاتا تھا۔
٭…٭…٭