” میں نے رات بڑا بُرا خواب دیکھا ہے اللہ وسائی۔ یہ موتیا کہاں ہے۔” گامو نے صبح سویرے کنویں سے واپس آتے ہی بڑی فکر مندی سے بیوی سے کہا تھا جو روز کی طرح اس کے لئے ناشتہ بنانے بیٹھی ہوئی تھی اور اب اس کی بات سنتے ہی فکر مند لگنے لگی تھی۔
“تو نے آج کل میری طرح الٹے سیدھے خواب دیکھنا شروع کردیئے ہیں۔” اللہ وسائی نے پاس بیٹھتے ہوئے گامو سے کہا اور اس کے جملے پر وہ چونکا تھا۔
“تو نے بھی کوئی خواب دیکھ لیا؟ ”
“دفع کر میرے خوابوں کو تو بتا تو نے کیا دیکھا۔” اللہ وسائی نے اسے کریدا تھا۔
” کچھ یاد نہیں بس یہ یاد ہے کہ جو بھی تھا موتیا کے بارے میں تھا اور موتیا پریشان ہے۔” گامو نے بات جیسے گول کرتے ہوئے کہا اور پھر ساتھ ہی اس نے موتیا کو آواز دی۔
“بتول کی طرف گئی ہے۔ اس کا دوپٹہ رہ گیا تھا ادھر۔” اللہ وسائی نے بتایا اور ساتھ ہی فکر مند ہوگئی۔
“اب گھر سے کہیں جانے نہ دیا کر اُسے۔ دن ہی کتنے رہ گئے ہیں شادی میں۔” گامو نے چنگیراپنی طرف کھسکاتے ہوئے کہا۔
” ہاں میں نے بھی سوچا ہے بس آج مایوں بٹھا دینا ہے اُسے ۔ ورنہ اس کو تو گھر بٹھانا مشکل ہوگیا ہے اس بار ۔ ہر وقت بتول بتول کرتی رہتی ہے۔” اللہ وسائی نے کہا۔
“آج صدقہ بھی دیتا ہوں اس کا ، نظر بھی تو لگ جاتی ہے کئی بار، یاد ہے جب ڈاکٹری میں داخلہ ہوا تھا تب بھی بیمار ہوگئی تھی۔” گامو کو یاد آرہا تھا ۔ وہ باپ تھا۔ بیٹی کے بارے میں آنے والے کسی برے خواب پر یقین نہیں کرنا چاہتا تھا۔
“ہاں ہاں مجھے کیوں یاد نہیں ہوگا گامو؟ کہاں کہاں لے کر پھرے تھے اُسے پھر پیر صاحب نے دعا کی تھی تب ہی آرام آیا اور اب دیکھو… کیسا نصیب ہے میری دھی کا کہ ان ہی پیر صاحب کے خاندان کا حصہ بن جائے گی۔ “اللہ وسائی کی بات کرتے کرتے آواز بھر آئی۔
“جھلی ہوگئی ہے۔کیوں صبح صبح بدشگونی کرنے بیٹھ گئی ہے۔” گامو نے اسے ڈانٹا۔
” تیرا دل بڑاسخت ہوگیا ہے گامو تو سوچتا نہیں کہ وہ چلی جائے گی تو گھر کتنا سونا ہوجائے گا ہمارا۔ “اللہ وسائی نے جیسے اس کو چبھوکا دیا۔
“میں نہیں سوچتا کچھ بھی اللہ وسائی۔ سوچنے بیٹھوں گا تو کھانا پینا ہی چھوٹ جائے میرا تو۔ دھی ہوتی ہی پرایا دھن ہے بس جتنے سال ہمارا آنگن مہکایا، مہکایا اب اگلوں کے گھر کی بہار بنے گی۔ “گامو کی آنکھیں بھی نم ہوگئی تھیں۔
” میں تو بس ہنستا بستا دیکھ لوں اُسے پھر تو چاہے بلاوہ آجائے۔” اللہ وسائی نے دوپٹے سے آنکھیں رگڑیں ۔ گامو جیسے تڑپ اُٹھا۔
“بس بیٹی کی پرواہ ہے تجھے اور میرا دھیان نہیں ۔ مجھے کون دیکھے گا۔ “اللہ وسائی روتے روتے ہنیس۔
“ارے تم کرلینا دوسری شادی بلکہ موتیا کو کہہ کے جاؤں گی میں کہ…” وہ اپنا جملہ مکمل نہ کرسکی۔ گامو نے چنگیر پیچھے کردی تھی۔
“اچھااچھا ناراض نہ ہو صبح سویرے چل 100سال زندہ رہنے کی دعا کروں گی۔ موتیا کے بچوں کی شادی دیکھ کے جاؤں گی وہ بھی تیرے جانے کے بعد۔ گامو کو ناراض ہوتے ہوتے ہنسی آگئی۔
“چل کھاکھانا عورتوں کی طرح روٹھ روٹھ کے بیٹھتاہے صبح سویرے۔” اللہ وسائی نے اُسے ڈانٹتے ہوئے لسی کا گلاس اُسے کے سامنے رکھا۔
٭…٭…٭