جھوک جیون نے جیسا سوکھا اُس سال دیکھا تھا، پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ بارش وہاں پہلے دو تین سالوں سے نہیں ہورہی تھی مگر اس سال گرمی اتنی بڑھی تھی کہ اُس نے جیسے زمین کا پانی بھی چوسنا شروع کردیا تھا۔ نہر سے آبپاشی کے لئے آنے والا پانی کھیتوں اور کھلیانوں کو سیراب کرنے کے لئے پہنچتے پہنچتے کھلوں میں ہی اُڑجاتا۔ جھوک جیون کی زمین یکدم ہی بنجر ہونے لگی تھی۔ کھلوں سے آنے والا پانی پی کر بھی اُس کی پیاس نہیں مٹتی تھی۔ سرسبز کھیت آہستہ آہستہ سمٹنے اور سوکھنے لگے تھے اور گاؤں والوں میں ساتھ ہی سراسیمگی اور پریشانی بھی بڑھنے لگی تھی۔ اس گاؤں میں ایسا سوکھا ایک بار تب پڑا تھا جب تاجور ابھی بیاہ کر نہیں آئی تھی اور جب اللہ وسائی کی گود ابھی ہری نہیں ہوئی تھی اور اب ڈھائی دہائیوں بعد وہ سوکھا اور خشک سالی ایسے لوٹی تھی جیسے سیلاب کا پانی۔ لوگوں کے جانوروں میں بیماری پڑنے لگی تھی اور وہ مرنے لگے تھے۔ گاؤں کے کنویں کا پانی آہستہ آہستہ نیچے جارہا تھا اور اب نہ ہونے کے برابر رہ گیا تھا اور جب چوہدری شجاع ہر جگہ سے بارش کے لئے دعائیں کروا کروا کر تھک گیا تھا تو وہ پیر ابراہیم کے پاس بھی گیا تھا، جنہوں نے ہمیشہ کی طرح چوہدری شجاع اور تاجور کے کہنے پر ہاتھ اُٹھا کر دُعا کی تھی اور دُعا کرتے کرتے انہوں نے چوہدری شجاع سے پوچھا تھا۔
” گاؤں میں آخری مرنے والا کون تھا؟”
اُن کا لہجہ بے حد عجیب تھا۔ وہ دونوں ہاتھوں کو دعا والے اندازمیں کئے ہوئے اُن سے چہرہ ڈھکے ہوئے پوچھ رہے تھے۔ چوہدری شجاع نے ایک لمحہ کے توقف کے بعد کہا۔
” گامو! ”
پیر ابراہیم نے اپنے چہرے کے سامنے سے ہاتھ ہٹادیئے۔ اُن کا چہرہ زرد ہورہا تھا۔وہ کچھ دیر چوہدری شجاع کا چہرہ دیکھتے رہے جو انہیں گامو کی موت کی تفصیل بتارہا تھا۔ جب وہ خاموش ہوا تو پیرابراہیم نے کہا۔
”استغفار کرو تم بھی تاجور بھی … گاؤں والے بھی… ابھی بہت ساری بلائیں اور آفتیں آئیں گی تم لوگوں کی بستی پر۔ توبہ ، استغفار کرو… تمہار ی بستی سے جو نیک آدمی گیا ہے، وہ ناراض ہوکر گیا ہے۔ اُس کی بیوی اور بیٹی کے دروازے پر جاؤ، اُن سے معافی مانگو۔ اُن کا خیال رکھو، ورنہ بستی اُجڑ جائے گی۔”
وہ عجیب سے اندازمیں کہہ رہے تھے اور اُن کا جسم لرز رہا تھا۔ چوہدری شجاع کے رونگھٹے کھڑے ہونے لگے۔
”آپ دعا کریں نا، اس ہی لئے آیا ہوں آپ کے پاس۔”
‘ ‘دعا کی نہیں توبہ کی ضرورت ہے تم لوگوں کو… صدقہ، خیرات جو کرسکتے ہو کرو… جو اناج رکھا ہے، بانٹ دو غریبوں میں۔ شاید کوئی عمل روک لے آنے والی تباہی کو۔”
پیر ابراہیم کے اب آنسو گرنے لگے تھے اور چوہدری شجاع کا دل ڈوبنے لگا تھا۔
تاجور سے چوہدری شجاع نے سب کچھ اُس ہی طرح دہرایا تھا جس طرح پیر ابراہیم نے بتایا تھا۔ وہ نہ لرزی تھی ، نہ کانپی تھی نہ اُس پر کوئی دہشت سوار ہوئی تھی۔
” باباجان کو ساری عمر کمّی کمین ہی نیک لگتے ہیں اُن کو وہ اپنی اولادوں سے بھی بڑھ کر محترم ہوجاتے ہیں۔ آپ فکر نہ کریں کچھ نہیں ہوگا۔ گامو کوئی فرشتہ نہیں تھا ، نہ ولی۔ نہ کوئی پیر۔سوکھا پہلے بھی پڑتا رہا ہے اس گاؤں میں… اس دفعہ پھر پڑ گیا تو کیا ہوا؟ ان شا ء اللہ تعالیٰ ہوجائے گی بارش۔ میری ماں سیدانی تھیں اور جہاں سیدوں کی بیٹیاں آباد ہوں،وہاںدانہ پانی ختم نہیں ہوتا۔ دیکھ لینا کچھ نہیں ہوگا۔”
تاجور نے پیر ابراہیم کی اُن باتوں اور ہدایات کے جواب میں شوہر سے بڑی نخوت اور لاپرواہی سے یہ سب کچھ کہا تھا ۔ اُسے لگا باپ ایک بار پھر خوامخواہ میں ہی انہیں موتیا کے حوالے سے شرمسار کرنے کی کوشش کررہا تھا۔ چوہدری شجاع اُس کی باتوں پر مطمئن نہیں ہواتھا۔ اُس کا دل ابھی بھی خوفزدہ تھا، پر تاجور کی دلیری نے جیسے اسے بھی کچھ ہمت دے دی تھی۔
”ہاں ٹھیک تو کہتی تھی۔ سوکھا پہلے بھی پڑچکا ہے یہاں اور پھر ختم بھی ہوگیا تھا تو پھر اس بار کون سی انہونی ہوجائے گی۔ ”
چوہدری شجاع نے جیسے اپنے آپ کو تسلی دینے کی کوشش کی تھی۔
” سب کچھ غریبوں میں بانٹ دیا اور سوکھا لمبا کھنچ گیا تو پھر ہم کیا کریں گے؟”
چوہدری شجاع نے سوچا تھا اور پھر پیر ابراہیم کی باتوں کو نظر انداز کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
” ہاں توبہ ضرور کرلیتا ہوں…تسبیح کرلیا کروں گا۔ مولوی صاحب سے بھی کہہ دو ں گا کہ گاؤں والوں سے استغفار کروائیں اور جمعے کے خطبے میں بھی توبہ پر بات کریں۔ باقی اللہ مالک ہے۔”
وہ جیسے خود ہی مطمئن ہوگیا تھا۔
٭…٭…٭