Blog

Dana-Pani-Ep-8

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
دانہ پانی
قسط نمبر08
عمیرہ احمد

مٹّی دا توں مٹّی ہونا کاہدی بلّے بلّے
اج مٹّی دے اُتے بندیا کل مٹّی دے تھلّے



اللہ وسائی بے یقینی کے عالم میں گامو کا چہرہ دیکھتی رہی پھر اُس نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے گامو سے کہا۔
” نہ گامو! یہ نہیں کرسکتی میں۔ جس اولاد کو منتوں مرادوں سے لیا ہے،اُسے اپنے ہاتھوں سے مارنے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔”ا’س نے دوپٹے سے اپنی آنکھیں رگڑتے ہوئے کہا تھا۔
”اور تو بھی کیوں سوچ رہا ہے مرنے کا؟ گامو مت سوچ ایسا کچھ بھی… یہ شیطان ہے جو تجھے بھٹکا رہاہے۔”
اللہ وسائی نے اپنے شوہر کا ہاتھ پکڑ کر جیسے اُسے سنبھالا دینا چاہا تھا اور وہ گیلی آنکھوں کے ساتھ قہقہہ مار کر ہنسنے لگا تھا۔
” شیطان کو کیا پڑی ہے اللہ وسائی کہ وہ جھوک جیون میں آئے… یہاں اس کا کیا کام… یہاں تو انسان کافی ہیں اُس کا کام کرنے لئے۔”
وہ ہنس رہاتھا اور بڑبڑا رہا تھا۔ اللہ وسائی کا بھی دل بھرآنے لگا تھا۔
”نہ روگامونہ رو! موتیا ٹھیک ہوجائے گی۔ تجھے یاد ہے جب اولاد نہیں تھی تو کتنے سال اولاد کے انتظار میں گزارے تھے ہم نے۔ کبھی زبان پر شکوہ نہیں لائے…پھر رب سوہنے نے اپنی رحمت کردی تھی۔ اب پھر کردے گا۔ ٹھیک ہوجاناہے موتیا نے۔ دیکھنا تُو۔”
اللہ وسائی شوہر کو تسلیاں دینے لگی۔ گامواُس کا چہرہ پلکیں جھپکائے بغیر دیکھتا رہا۔ پھر اُس نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔
”پتہ نہیں اس بار دل کو تسلی کیوں نہیں ہوتی کہ سب ٹھیک ہوجائے گا۔”
وہ اُٹھ کر صحن کے چکر کاٹنے لگا۔ اللہ وسائی بیٹھی بے بسی سے شوہر کو دیکھتی رہی۔ اُس کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں تھا۔ نہ وہ شوہر کے لئے کچھ کرسکتی تھی، نہ بیٹی کے لئے۔ بے بسی سی بے بسی تھی جو وہ محسوس کررہی تھی اور اس کیفیت میں وہ بس رب سوہنے کو ہی پکار سکتی تھی اور پکار رہی تھی۔ غم تھا کہ سینہ چیر رہا تھا اور آنسو تھے کہ سیلاب بن کر سب کچھ بہا لے جانے کے لئے کھڑے تھے اور دل کا بوجھ تھا کہ بھاری سے بھاری ہی ہوتا جارہا تھا۔ نہ رونے سے گھٹ رہا تھا، نہ رب کو پکارنے سے۔ وہ بس گامو کودیکھ رہی تھی جو ننگے پاؤں اُس صحن میں پھررہا تھا جس کے فرش کو اب اللہ وسائی نے لیپنا بند کردیا تھا۔
جھوک جیون میں اُس سال بارش نہیں ہوئی۔اُس گھر میں دو انسانوں کی آنکھوں سے ہونے والی برسات نے جھوک جیون میں بارش لانے والے بادلوں کا سارا پانی پی لیا تھا۔
گاؤں میں پریشانی کی لہر دوڑی تھی۔ بڑے سالوں کے بعد یہ پہلا سال تھا جب جھوک جیون کے آسمان پر بدلیاں اُمڈ کر برسے بغیر گزری تھیں۔ گاؤں کے لوگوں کی طرح چوہدریوں کو بھی فکر ہوئی تھی۔ چوہدری مراد کا بیٹا پیداہو، اور گاؤں میں سوکھا پڑجائے۔ یہ کم از کم تاجور کو تو برداشت نہیں ہورہا تھا۔ لیکن پھر اُس نے خود کو یہ کہہ کر تسلی دے دی تھی کہ یہ اتفاقاً ہوا ہوگا ، اِس بار نہیں تو اگلے سال تو ضرور ہی بارشیں ہوں گی۔
مراد بیٹے کو دیکھنے تین مہینے کے بعد گاؤں آیا تھا اور اُسے گود میں لئے وہ بہت دیر اُس کا چہرہ دیکھتا رہا۔
”ہے نا خوبصورت تیرا بیٹا؟”
تاجور نے اُسے یوں بیٹے کو دیکھتے دیکھ کر جیسے فخریہ اندازمیں کہا تھا۔مراد نے جواب دینے کے بجائے بیٹے کا ماتھا چوما تھا اور اُسے ماہ نور کی گود میں دے دیا تھا۔ وہ شادی کے بعد پہلی بار پاکستان آیا تھا اور بالکل بدلا ہوا تھا۔ مختصر بات کرتا اور مسکرانا بھول گیا تھا۔ تاجور کو اُس کے رویے نے پریشان کیا تھااور ماہ نو ر کو دل شکستہ۔ سارا سال تاجور اُسے یہی کہہ کہہ کر بہلاتی رہی تھی کہ اولاد ہوتے ہی سب ٹھیک ہوجائے گا اور بیٹا ہونے ر تو مراد نے واقعی سب کچھ بھول جانا تھا، پر مراد کچھ بھی نہیں بھولا تھا نہ بدلا تھا۔ اُس کے لہجے کی ٹھنڈک میں کوئی شبنم نہیں اُتری تھی۔
وہ دس دن کے لئے آیا تھا اور چلاگیا تھا اور ان دس دنوں میں گاؤں کی ایک گلی میں اُسے موتیا کی یاد آئی تھی اور اُس کا دل چاہا تھا وہ لوگوں سے اُس کا پوچھے پر اُس نے جیسے اپنے زبان اور دل پر قفل ڈال لئے تھے۔ اب کیا نام لینا موتیا کا… کیا یاد کرنا اُس کو… وہ یہ سمجھے بیٹھا تھا کہ وہ شوہر میں ڈاکٹر بن رہی ہوگی۔ یہ بھی ہوسکتا تھا کہ وہ کسی اور سے شادی کرچکی ہوتی۔ یہ بھی ممکن تھا کہ وہ کسی اور کی محبت میں گرفتار ہوکر اُس پر ہنستی ہو۔ پتہ نہیں مراد کو کیا کیا خیال آئے تھے اور سارے ہی خیال پل بھر میں غائب ہوجاتے تھے۔ دل موتیا موتیا کرتا تھا اور وہ اُس دل کو کوڑے مارتا تھا پھر بھی وہ مرتا نہیں تھا، ڈھیٹ تھا۔ موتیا کے پیار میں اُس سے بھی ڈھیٹ تھا۔ دماغ اچھا تھا اس معاملے میں اُس کی سنتا تھا۔ اُسے جب کہتا وہ موتیا کے بارے میں سوچنا بند کردیتا۔ وہ دل اور دماغ کی یہ جنگ لے کر پاکستان آیا تھا اور پاکستان سے جاتے ہوئے ماہ نور کو ساتھ لے گیا تھا۔ یہ بھی تاجور کی ضد تھی، اُسے لگا تھا بیٹا وہاں اکیلا رہتا تھا اس لئے بدل گیا تھا۔ ماہ نور اور اُس کا بچہ ساتھ رہیں گے تو مراد پھر وہی پہلے والا مراد ہوجائے گا۔ وہی ماں باپ پر قربان جانے والا، خوش مزاج، خوش گفتار جس کی چھیڑ خانی تاجور کو اچھی لگتی تھی اور جس کے بلند و بانگ قہقہوں پر وہ قربان جایا کرتی تھی۔
مراد نے کوئی ضد نہیں کی تھی۔ تاجور نے جیسے کہا تھا، اُس نے ویسے ہی کیا تھا۔ وہ ماہ نور کو لے کر لندن آگیا تھا۔ ماہ نور بڑی خوشی اور ولولے کے ساتھی آئی تھی۔ تاجور نے اُسے یہی کہا تھاکہ اکیلا رہ رہ کر ایسا ہوگیا ہے مراد، اب تم او ربچہ پاس رہوگے تو دیکھنا کیسے نثار ہوتاہے وہ تم پر۔



تاجور غلط تھی اور ماہ نور بے وقوف۔ مراد کے پاس لندن میں رہ کر بھی ماہ نور اُس کا دل جیت پائی نہ اُس کی چپ توڑ پائی تھی، پر اُسے لگتا تھا وہ کالے پانی کی سزا کاٹنے وہاں اُس کے ساتھ آگئی تھی، جہاں وہ سارا سارا دن دو کمروں کے اُس چھوٹے سے فلیٹ کی دیواروں کو دیکھتی رہتی تھی یا پھر کھڑکیوں سے باہر نظر آنے والے لوگ اور گاڑیاں جو اُسے چلتے پھرتے نظر آتے تھے۔ اُس فلیٹ کے اندر اُس کی اور مراد کی خاموشی کو اگر کوئی توڑتا تھا تو وہ اُس کا بیٹا تھا، مگر اُس کا رونا دھونا، ہنسنا کھیلنا بھی کئی بار ماہ نور کو غصہ دلاتا۔ اُسے لگنے لگا تھا وہ وہاں پاگل ہورہی تھی اور پاگل ہوجانے سے بچنے کے لئے اُس نے مراد سے واپس جانے کا اصرار کیا تھاجو مراد نے خاموشی سے پوراکردیا تھا۔
ماہ نور ایک بار پھر امید سے تھی ۔ جب وہ پانچویں مہینے واپس گاؤں آگئی تھی اور تاجور بہو اور پوتے کو واپس دیکھ کر جہاں نہال ہوئی تی،وہاں وہ یہ جان کر پریشان بھی ہوئی تھی کہ وہ اب مراد کے پاس دوبارہ لندن نہیں جانا چاہتی تھی۔
”تیرا خیال نہیں رکھا اُ س نے؟” اُس نے پریشان ہوکر ماہ نور سے پوچھا تھا جس کے چہرے پر رونق تھی نہ آنکھوں میں چمک۔
” رکھتا تھا پھوپھو جو چیز مانگتی تھی بغیر کہے لاکر دیتے تھے پیار کے سوا۔ بس اُن کے پا س میرے لئے پیار کا ایک لفظ بھی نہیں ہے۔” ماہ نور غم زدہ تھی اور اُس نے اپنا غم اسی طرح تاجور کو سنایا تھا۔
”مرد ایسے ہی ہوتے ہیں ، بیویوں سے کہاں پیار محبت کی باتیں کرتے ہیں؟ کہاں اُن کے قصیدے پڑھنے بیٹھتے ہیں۔ تو نے تو پریشان ہی کردیا مجھے ماہ نور! میں سمجھی پتہ نہیں کتنا ستایا ہے مراد نے۔”
تاجور نے ہنس کر ماہ نور کو بہلایا تھا جو چپ چاپ تاجور کو دیکھتی رہی ، پھر جب وہ خاموش ہوکر اُس کا بیٹا گود میں لے کر اُس کے ساتھ کھیلنے لگی تو ماہ نور نے کہا۔
”پر مراد میرے لئے گونگابنا ہے، اُس کے لئے تو نہیں۔”
تاجور نے اُس کا چہرہ چونک کر دیکھا تھا۔ ماہ نور کی آنکھوں میں عجیب سی آگ تھی، آنسو نہیں تھے۔
”وہ نیند میں اُس کا نام لے لے کر باتیں کرتے ہیں اُس کی۔ اُس کے حسن کے قصیدے پڑھتے ہیں۔”
وہ اب وہ نظم سُنا رہی تھی تاجور کو جو اُس نے نیند میں مراد کو کئی بار پڑھتے سنی تھی۔ وہ اُس کے پہلو میں نیند کی وادیوں میں بھی موتیا کے ساتھ پھرتا اُسے پکارتا اور اُس کے حسن پر مرمٹنے کی باتیں کرتا اور ماہ نور بستر پر بیٹھی اُس کا چہرہ دیکھتی اُس رقیب کے قصیدے سنتی جو اُن دونوں کے بیچ سے کبھی ہٹی ہی نہیں تھی۔
اُس کے نین غزالی دلبر
اُس کے گال گلابی
تاجور نے ساکت بیٹھے ماہ نور کی زبان سے داستانِ امیر حمزہ کی طرح داستانِ موتیا و مراد سنی تھی اور وہ بھی ماہ نور کے سامنے گونگی ہوگئی تھی۔ اُسے اب کیا تاویل اور توجیہہ دیتی اُس کی سمجھ میں نہیں آیا تھا۔ اب تو دو سال گزرنے کو تھے۔ اب تو اُن دونوں کے درمیان کوئی رابطہ بھی نہیں تھا۔ اب تو وہ ایک بیٹے کا باپ بن چکا تھا۔ دوسرا اُس کے گھر آنے والا تھا۔اُس کے پاس بہت سارے ”اب تو” تھے اور کوئی بھی مراد کے لئے رسّی نہیں بنا تھا۔اُس نے موتیا کو کھُرچ کھُرچ کر اُس کے دل سے اُتارا تھا۔ اُس کی کوئی پرچھائیں تک نہیں رہنے د ی تھی پر مراد پر اس کا سایہ ہی کیسے ہوگیا تھا۔
”لوگ جادو ٹونے کردیتے ہیں۔بڑا کاری وار کرتے ہیں۔ تجھے یاد ہے نا آدم کی دفعہ تجھے خوشبو آیا کرتی تھی ہر طرف موتیہ کی۔ اُن لوگوں نے ہی ٹونے کئے ہیں مراد پر دل باندھ دیا ہے اُس کا۔”
تاجور نے لمبی چپ کے بعد وہی سب کچھ کہنا شروع کیا جواُس کی سمجھ میں آیا تھا۔ پیار محبت کی طاقت اُسے سمجھ میں نہیں آتی تھی، جادو ٹونے کا ثر اُسے سمجھ میں آتاتھا۔ اُس نے ماہ نور کے سامنے وہی راگ الاپا تھا جو اُس نے ہمیشہ سنا تھا۔
”پھوپھو اُس کا کوئی توڑ نہیں؟” ماہ نور نے عجیب بے بسی کے ساتھ اُس سے پوچھا تھا۔
تاجور کے پاس اُس کی بات کا کوئی جواب نہیں تھا۔ ہر دُعا اُس نے کر چھوڑی تھی۔ ہر وظیفہ اُس نے آزما لیا تھا۔ پیر ابراہیم سے اُن کی ناراضگی کے باوجود دعائیں کروائی تھیں، پر کوئی دُعا کوئی جتن مراد کے دل کا بند تالہ نہیں کھول پائے تھے اور اب ماہ نور اُس سے ایک بار پھر وہی سوال کررہی تھی۔
”وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سب کچھ ٹھیک ہوتا جائے گا۔ ابھی تو دو سال ہی گزرے ہیں نا۔کتنے اور سال گا یہ جادو؟ بھول جائے گا مراد موتیا کو! ہوجائے گی کاٹ…تو نہ گھبرا ماہ نور۔ دیکھنا اِس بار بھی بیٹا ہوگا اور جب دو بیٹوں کی ماں ہوجائے گی تُو تو مراد کو عزت دینی ہی پڑے گی تجھے۔”
تاجور کو جو تاویلیں، جو طفل تسلیاں آرہی تھیں، وہ اُسے دے رہی تھی اور ماہ نور تھی کہ بہلنے میں ہی نہیں آرہی تھی۔
”عزت کا مسئلہ نہیں ہے پھوپھو… عزت تو بہت کرتا ہے وہ، پر پیار نہیں کرتا… خیال کرتاہے، قدر نہیں کرتا… سر پر بٹھاتا ہے، دل میں نہیں بٹھاتا۔”ماہ نور اب پہلی بار روئی تھی۔



”عزت کا تومسئلہ ہی نہیں ہے میرے اور مراد کے درمیان… عزت ہی عزت رہ گئی ہے۔ پیار تو ہے ہی نہیں۔”
وہ روئے جارہی تھی اور تاجور کو لگا تھا کسی نے رسّی سے اُس کے وجود کو لپیٹنا شروع کردیا تھا۔ وہ اتنی ہی بے بس ہوگئی تھی ماہ نور کے آنسوؤں کے سامنے جو اُس کی بھتیجی تھی اور جس کے وجود سے اُس کے خاندان کی اگلی نسل چل رہی تھی۔
”بس تھوڑا صبر دھیئے! بس تھوڑا صبر… وہ تیرا ہوگیا ہے، اُس کا دل بھی تیرا ہوجائے گا۔” تاجور نے اُسے اپنے ساتھ لپٹایا تھا اور تسلّی دی تھی۔ اُس کا بیٹا ماں کو روتے دیکھ کر منہ بسورنے لگا تھا۔
”میں اُس سے بات کرو ںگی۔” تاجور نے اُسے ایک اور تسلّی دی تھی، یہ جاننے کے باوجود کہ اُس کے پاس ایسے کوئی الفاظ نہیں تھے جو اُس کے بیٹے کا دل نرم کرتے۔ موتیا کو اُس نے بس مراد کی زندگی سے نکال دیا تھا، اُسے وہم ڈال کر ۔ پر مراد کے دل سے اُس کا پیار نکالنے کے لئے اُس کے پاس کوئی چل، کوئی چلتر، کوئی جنتر منتر نہیں تھا۔ بس دعائیں اور وظیفے تھے اور تاجور کو پتہ نہیں کیوں اب لگتا تھا جیسے اُس کی دعاؤں میں کچھ مسئلہ ہونے لگا تھا۔ نہ اُس کی دعاؤں سے مراد پگھلتا تھا، نہ پانی برستا تھا۔ وہ آج بھی کڑوا پانی پیتی تھی جو اُس کے علاوہ کسی کو کڑوا نہیں لگتا تھا۔ اُس کے گھر کے ایک کمرے سے آج بھی راتوں کو موتیا کی خوشبو پھوٹتی تھی اور اُس خوشبو کے بارے میں بھی وہ کچھ نہیں کرپائی تھی سوائے مراد کے کمرے کو ہمیشہ کے لئے بند کردینے کے کیونکہ اُسے لگتا تھا وہاں جادو کیا گیا تھا، وہاں اثر تھا۔ پر وہ اثر اب اُن کی پوری زندگیوں پر ہونا شروع ہوگیا تھا۔ چوہدری شجاع اب پہلے کی طرح اُس کی عزت نہیں کرتا تھا۔ اُس سے روکھا بولتا تھا۔اُس کا باپ پیر ابراہیم اب اُس کے آنے پر چادر نہیں بچھاتاتھا، اُٹھ کر کھڑا نہیں ہوتا تھا۔ اُس سے مختصر بات کرتا تھا۔ تاجور اب اپنے تکبر اور غرور سے باہر نکل کر کھڑ ی ہوتی تو اُسے یہ سب کچھ محسوس ہونا شروع ہوجاتا اور پھر وہ ایک بار پھر اپنی ”میں” کی چادر اوڑھ لیتی، اور ایک بار پھر وہ بے حس ہوجاتی۔ وہ جیت تو گئی تھی نا موتیا سے… بس اتنا کافی تھا اُس کے لئے۔ باقی سب کچھ وقت کے ساتھ ساتھ ٹھیک ہوجانے والا تھا۔ وہ ضمیر کے ہر چابک کی چوٹ کو ان ہی لفظوں سے سہلاتی۔
”مراد! تو ماہ نور سے پیار کیا کر۔” فون پر چند دن بعد بالآخر تاجور نے بیٹے سے وہ ذکر چھیڑ ہی دیا تھا جس کے لئے لفظ ڈھونڈتے اُسے کئی دن لگے تھے۔
”وہ کیا ہوتاہے؟”
مراد نے بنا رکے پوچھا تھا۔ تاجور کو سمجھ نہیں آئی وہ کیا جواب دے۔ موتیا کا ذکر کئے بغیر مراد کوپیار کیسے سمجھائے۔
”وہی پیار جو تو موتیا سے کرتا تھا۔”اُس نے بالآخر یہ بات کہنے کی ہمت کرلی۔
”اُس پیار کو اُس ہی رات گاؤں کے قبرستان میں دفن کرآیا تھا، جس رات آپ نے مجھے کنویں پر بھیجا تھا موتیا کی بے وفائی کے ثبوت دیکھنے۔ ”
پتہ نہیں اُس کے لہجے کی ٹھنڈ ک میں وہ کون سی آگ تھی جس نے تاجور کو جھلسایا تھا۔
”غلط کیا تھا کیا تجھے اُس رات وہاں بھیج کر؟” تاجور کہے بغیر نہ رہ سکی۔
”ہاں نہ بھیجتیں تو پیار پر سے میرا اعتبار نہ اُٹھتا۔ وہ میری زندگی کا پہلا پیار تھا آپ نے اُسے ختم نہیں کیا، آپ نے اُسے ذبح کر کے ماراہے۔ اب مجھے ماہ نور سے پیار کرنے کو نہ کہیں۔ یہ میں کرنے کے قابل ہی نہیں ہوں۔”
مراد نے فون بند کردیا تھا، پر تاجور بہت دیر فون ہاتھ میں لئے بیٹھی رہی تھی۔ پھر اُس نے سوچھا تھا وہ اِس بار بڑا بھاری وظیفہ کرے گی مراد کے دل سے موتیا کو نکالنے اور بھلانے کے لئے۔ ایسا وظیفہ کہ مراد کو موتیا کے نام سے بھی نفرت ہوجاتی۔ تین مہینے ہر رات کی لمبی پڑھائی تھی، پر تاجور تیار تھی۔ اُس نے عبادت ہی کرنی تھی، اللہ کا نام ہی لینا تھا، نیکی ہی کرنی تھی۔ وظیفہ کامیاب ہوجاتا تو بھی عیش تھے، نہ ہوتا تو بھی آرام تھا۔ مراد دور رہتا تب بھی اللہ تو پاس ہی رہتا۔ تاجور نے اللہ کو منانا اور راضی رکھنا مراد کو منانے سے بھی زیادہ آسان سمجھ لیا تھا۔
بے شک انسان اپنے گمانوں سے مارا جاتا ہے اور بدگمانیوں پر پچھتاتاہے۔ بے شک انسان خسارے اور شر کاسودا بڑے ہی فخر سے کرتاہے۔ بے شک غرور اللہ کی صفت ہے اور اُس کے علاوہ کسی کو نہیں سجتی۔
٭…٭…٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!