Blog

Dana-Pani-Ep-8

”موتیا کیسی ہے اماں؟”
شکوراں نے حیران ہوکر بتول کی شکل دیکھی تھی۔ وہ کئی مہینوں کے بعد اُس کے پاس رہنے آئی تھی اور شکوراں کو اُس کا رنگ روپ پہلے جیسا نہیں لگا تھا۔ کُریدنے پر بھی وہ کچھ نہیں بولی تھی او ر اُس نے یکدم موتیاکے بارے میں پوچھنا شروع کردیا تھا۔


” موتیا کیسے یاد آگئی تجھے؟ تُو تو بڑی دیر ہوگئی، کبھی اُس کا پوچھتی ہی نہیں ۔ میں تو کئی دفعہ سوچتی ہوں کہ تو کیسی سہیلی ہے تجھے کبھی اُس کا خیال ہی نہیں آیا۔”شکوراں بھی آج کہے بغیر نہیں رہ سکی۔
” اماں تجھے لگتا ہے مجھے اُس کا خیال نہیں آتا ہوگا؟ دن رات اُس کا خیال آتا ہے۔” وہ عجیب انداز میں بڑبڑانے لگی تھی۔
”ویسی ہی ہے موتیا… نہ کچھ بولتی ہے، نہ کچھ کرتی ہے۔ بس بیٹھی رہتی ہے…جھولی میں کچھ سکے لے کر…اُنہیں رگڑتی رہتی ہے زمین پر۔ اللہ وسائی زبردستی کھانا کھلادے تو کھالیتی ہے، ورنہ کھانے پینے کا بھی ہوش نہیں۔ کوئی ڈاکٹر، حکیم، پیر نہیں چھوڑا اُن دونوں نے جہاں لے لے کر نہیں پھرے۔ کہیں سے کوئی فائدہ نہیںہوا۔ پتہ نہیں دل کو کتنا روگ لگا ہے کہ دماغ کا یہ حال ہوگی ہے۔ میں تو کہتی ہوں نظر ہی لگ گئی ہے موتیا کو تو۔ایسا روپ تو سات گاؤں میں کسی کا نہیں تھا۔ اس پورے علاقے میں پہلی لڑکی تھی جو ڈاکٹر بن رہی تھی۔ بس چوہدرائن نے بڑا ظلم کیا۔ اللہ وسائی تو منہ بھر بھر کر بددعا دیتی ہے اُسے اُجڑنے او ر برباد ہونے کی جس نے موتیا کے ساتھ یہ ظلم کیا۔”
شکوراں اپنی بیٹی کے تاثرات سے بے خبر اُسے موتیا کے بارے میں اطلاع دے رہی تھی اور بتول کا رنگ اُڑرہا تھا۔
” اللہ وسائی تتلاتی ہے اور زبان کالی ہے اُس کی… بڑ ے بوڑھے بڑا ڈرتے ہیں اِن لوگوں کی آہ لینے سے۔ وہ جب کہتی ہے نا کہ جو کچھ موتیا کے ساتھ ہوا، وہ اُس کے ساتھ بُرا کرنے والوں کی اولادوں کے ساتھ ہو، اُن کی بیٹیاں اُجڑیں، روئیں… بیٹے مریں… نسل ہی ختم ہوجائے…”
بتول کے کلیجے پر جیسے کسی نے ہاتھ ہی ڈال دیا تھا۔
” بس کر اماں! نہ سُنا مجھے یہ ساری باتیں۔” وہ اُٹھ کر کھڑی ہوگئی تھی او ر عجیب بے چینی کے عالم میں ادھر سے اُدھر پھرنے لگی تھی۔
”لے تجھے کیا ہوا بتول؟تو کیوں پریشان ہورہی ہے؟ یہ سب کچھ تو چوہدرائن او راُس کے بیٹے کی اولادوں کے لئے کہہ رہی ہے وہ… تجھے تھوڑی کچھ کہہ رہی ہے۔”شکوراں نے کچھ حیران ہوکر بیٹی کو دیکھا تھا جو اُسے ہی دیکھتی جارہی تھی۔
اولاد اپنے بعض گناہ اللہ کوبتاسکتی ہے، ماں باپ کو نہیں بتاسکتی کیونکہ وہ یہ یقین ہی نہیں کرسکتے کہ اُس خودغرضٰ اور بے رحمی کے خالق وہ ہوسکتے ہیں۔
بتول کا دل چاہا تھا، وہ ماں کو اُس لمحے بتادے کہ وہ ایک دوسرے انسان کے ساتھ کیا کربیٹھی تھی، پر اُسے خوف تھا اُس کی ماں اُسے جانور او رشیطان نہ سمجھ لے، پر ماں کی زبان سے اللہ وسائی کی دی گئی بددعائیں بتول کے رونگھٹے کھڑے کررہی تھی۔ شادی کو دو سال سے اوپر ہوگئے تھے اور وہ اب تک بچہ پیدا نہیں کرسکی تھی۔ ہر بار وہ چند ماہ بعد اُمید سے ہوتی اور بغیر کسی وجہ کے بچہ ضائع ہوجاتا۔ کوئی احتیاط، کوئی دُعا، کوئی تدبیر کام نہ آتی اور ہر بار جب وہ اِس کرب سے گزرتی تو اُسے موتیا یاد آتی۔ اُسے اللہ وسائی اور گامو کا و ہ حال بھی یاد آتا جو وہ گاؤں والوں کے منہ سے کہیں نہ کہیں سنتی رہتی تھی۔ پورے گاؤں کو پتہ تھا وہ موتیا کی بچپن کی سہیلی تھی ، یہ ممکن ہی نہ تھا کہ کہیں اللہ وسائی او رگامو کا ذکر ہوتا اور عورتوں کی نظریں بتول پر نہ اُٹھتیںِ اُن کی زبانوں پر اُس کے لئے سوال نہ ہوتے او ر وہ اُن نظروں، اُں سولوں سے بدک بدک کر اُٹھتی تھی بھاگتی تھی۔ اس سوال کا وہ کسی کو کیا جواب دے سکتی تھی کہ موتیا او رچوہدری مراد کے درمیان کیا ہوا تھا۔ اُن کا پیار اور رشتہ توڑ کیوںنہیں چڑھا۔


گاؤں کی عورتوں نے تاجور سے موتیا کے کردار کے بارے میں الزامات بھی سنے تھے۔ گاؤں کے مردوں نے چوہدری شجاع کے منہ سے یہ بھی سنا تھا کہ وہ اپنے بیٹے کا رشتہ گامو کی بیٹی سے کرنے جارہا تھا… تو پھر کیا ہوا تھا؟ کون آیا تھا اُن کے بیچ… چار دن گاؤں کے لوگ اندھے بہرے گونگے ہوئے تھے۔ زبانوں سے چٹخارے دار باتیں کی تھیں۔ چار دن کے بعد لوگوں کی عقلیں کام کرنے لگی تھیں۔ جانتے وہ اللہ وسائی او ر گامو کو بھی تھے اور موتیا کو بھی ۔ یہ دل سے ماننے پر کوئی تیار نہیں ہورہا تھا کہ موتیا آوارہ تھی۔ پورا گاؤں اللہ وسائی اور گامو کی شرافت کے گُن گاسکتا تھا۔ پورا گاؤں موتیا کی پارسائی کی قسم بھی اُٹھا سکتا تھا، پر اُن میں سے کسی نے وقت پڑنے پر نہ اس شرافت کی گواہی دی تھی نہ اُس پارسائی کی قسم اُٹھائی تھی اور اب جب وقت گزرگیا تھا تو چٹخارے لینے والی زبانوں کا مصالحہ ختم ہونے لگا تھا اور اب اُن پر کھرے کھرے سوال اور باتیں آنے لگی تھیں اور اُن کھرے سوالوں اور باتوں کے سامنے بتول کا ضمیر ٹھہر نہیں پارہا تھا۔ یا شاید ضمیر سے بڑھ کر وہ اذیت اور محرومی تھی جو اُسے بار بار کچوکے دیتے ہوئے یہ یاد دلاتی تھی کہ اُس کے ساتھ جو کچھ ہورہا تھا، وہ اُس کے ”گناہ” کی ”سزا” اتھی اور وہ ”سزا” دائمی بھی ہوسکتی تھی۔ سسرال والے اب اُسے طعنے دینے لگے تھے۔
چوہدری مرادکے دونوں بیٹوں کی مثالیں دی جاتیں جس کی شادی اُن کے بیٹے کے ساتھ ہوئی تھی اور دو سالوں میں وہاں دوبیٹے آگئے تھے اور اُن کے بیٹے کا گھر سُونا تھا۔ اُس کا شوہر بھی ماں باپ کی باتیں سُن سُن کر اُس سے بے التفاتی کا شکار ہونے لگا تھا۔ وہ دو دفعہ اُس کے پاس کویت سے ہوکر واپس آگئی تھی۔وہ عیش و آرام جس کے وہ خواب دیکھتے ہوئے شادی کر کے کویت گئی، بھسم ہوگئے تھے۔ وہ پیار محبت شادی کے شروع کے چند ہفتوں میں ہی اُڑ گیا تھا۔ دو ر ہونے کے باوجود سسرال والوں کو سعید اور اُس کی آمدنی پر مکمل قابو تھا اور بتول ایک روپیہ بھی اپنی مرضی سے خرچ نہیں کرسکتی تھی۔ جو خوف ہر وقت اُس کے گرد منڈلاتا رہتا تھا وہ یہی تھا کہ ماں باپ کے مجبور کرنے پر سعید کہیں ایک اور شادی نہ کرلے اوراُسے پتہ ہی نہ چلے…تو وہ ہولاتی اور ہولائی کویت اور اپنے گاؤں کے چکر کاٹتی رہتی۔ وہ سارے اللے تللے جو اُسے چوہدرائن کے دیئے ہوئے پیسوں سے کرنے تھے وہ ہوا بن کر اُڑ گئے تھے۔ اُس کا وہ پورا جہیز اُس کے سسرال والوں نے اپنی بیٹیوں میں بانٹ دیا تھا کیونکہ وہ کویت چلی گئی تھی اور بھابھی کی ہر چیز ضائع ہورہی تھی، اس لئے بہتر تھا کہ وہ بیٹیوں کو اُن کے سسرا ل میں بھیج دی جاتی۔ بتول پہلی بار کویت سے واپس آنے پر ایک خالی کمر ے میں بان کی چارپائی پر سوئی تھی کیونکہ کمرے کے پردے اور فرنیچر تک اُس کی نندوں میں تقسیم ہوچکا تھا اور اُس کے جھگڑنے پر سعید نے اُسے کہا تھا کہ اُسے چیزوں کی اتنی پروا ہے تو وہ چوہدریوں کے گھر سے اور لے آئے۔آخر اُس کی ماں اب بھی تو وہاں ہی کام کرتی تھی اور بتول حویلی جانے کا سوچنے سے بھی ڈرتی تھی اور خود تاجور نے بھی شکوراں سے کہا ہوا تھا کہ بتول اب حویلی نہ آئے۔تاجور کو یہ خدشہ تھا کہ بتول کی زبان سے اگر کچھ نکل گیا تو وہ ماہ نور اور اُس کے بیٹے کے کانوں تک نہ پہنچ جائے۔ اُس نے جو سازش کی تھی اُسے اُس پر شرم نہیں تھی،مگر اُس سازش کے کھل جانے کا خوف ضرور تھا۔
انسان اللہ کے سامنے گناہ کرنے سے نہیں ڈرتا، لیکن بندوں کے سامنے اُن گناہوں کے آجانے سے ضرور ڈرتاہے۔
”تو مجھے یہ بتا بتول کوئی خوشخبری ہے؟”
شکوراں کو اُس کی کیفیت سے یکدم جیسے اُس کے حاملہ ہونے کا خیال آیا۔ اُس نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے ماں سے کہا۔
”مجھے لگتا ہے میری نسل نے آگے نہیں بڑھنا اماں…میرے گھر نہیں ہونا بچہ!”
شکورا ں نے جیسے ہول کر اپنے سینے پر ہاتھ رکھا۔
” کیسی باتیں کررہی ہے تو بتول؟ کیوں اس وقت برے الفاظ زبان پر لارہی ہے…رب سوہنے کے گھر دیر ہے، اندھیر نہیں۔”
بتول نے ماں کی تسلیوں کو سنتے ہوئے اُس کا چہرہ دیکھا۔
”اماں مجھے لگتاہے توبہ کئے بغیر کچھ نہیں ہونا…کسی سے معافی لئے بغیر کچھ نہیں ہونا۔”
وہ عجیب سے انداز میں بڑبڑائی تھی۔
” کس سے معافی لینی ہے تو نے؟ کیا کیا ہے تو نے؟”
شکوراں کو سمجھ نہیں آئی تھی۔ بتول انگلیاں چٹخاتے ہوئے اُسی طرح پھرتی رہی۔ اُس نے ماں کی بات کا جواب نہیں دیا تھا اور شکوراں بغور اپنی بیٹی کو دیکھتی رہی، یوں جیسے اس جگسا پزل کو حل کرنے کی کوشش کررہی تھی۔


٭…٭…٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!