Blog

Dana-Pani-Ep-8

”تو آئے گا نہیں اپنے بیٹے کو دیکھنے؟” تاجور کو یقین نہیں آیا تھا جب اُس نے فون پر مراد سے یہ سنا تھا کہ وہ پاکستان نہیں آسکتا۔
”امی پریکٹس شروع کی ہے میں نے… میرے بہت سارے اہم کیسز کی سماعت ہے یکے بعد دیگرے … ممکن نہیں ہے میرے لئے چھٹی لے کر نکلنا۔” مراد نے وضاحت دی۔


”پہلے بیٹے کی دفعہ بھی تین مہینے کے بعد آیا تھا …تو اب چھے مہینے بعد بھی نہیں آسکتا؟” تاجور اب ناراض ہونے لگی تھی۔
”نہیں آسکتا۔” مراد کا جواب دو ٹوک تھا۔
”آپ ماہ نو رکو بھیج دیں دو ، تین مہینے بعد… وہ کچھ دیر رہ کر چلی جائے۔” مراد نے جیسے حل پیش کیا۔
”لوگ کیا کہیں گے مراد؟ تجھے خوشی نہیں ہے اپنے دوسرے بیٹے کی؟ حویلی کے دو، دو وارث آگئے ہیں۔ اکلوتے وارث کا سلسلہ ٹوٹا ہے پہلی بار… تیسری نسل میں دو وارث آگئے ہیں۔ کسی قسمت والی بیوی ہے ماہ نور اور تو پھر بھی نہیں آسکتا۔”مراد کو تاجور کے کلمات نے جیسے بُری طرح سُلگایا تھا۔
”لوگوں کی پروا کبھی آپ نے نہیں کی تو میں کیوں کروں؟ مجھے کو ن سا اُن لوگوں کے ساتھ رہنا ہے۔”
وہ پہلا جملہ تھا جس نے تاجور کو سانپ کی طرح ڈسا تھا۔ وہ کیوں کہہ رہا تھا کہ اُسے اُن لوگوں کے پاس آکر کبھی رہنا ہی نہیں تھا۔ وہ پڑھنے باہر گیا تھا۔پڑھ کر پریکٹس کررہا تھا اور پھر تاجور اور چوہدری شجاع نے ہمیشہ ہی یہ سوچا تھا کہ وہ واپس آئے گا۔ پاس والے شہر میں اپنا لاء چیمبر بنائے گا اور ساتھ زمینیں سنبھالے گا۔ شہر اور گاؤں میں اب فاصلے کم ہونے لگے تھے۔پکّی سڑکیں بن رہی تھیں ۔ تانگوں کے ساتھ ساتھ اُن کے ہاں اب گاڑی بھی آگئی تھی۔ گاؤں میں بجلی بھی آگئی تھی اور گیس آئندہ آنے والے چند سالو ں میں آجاتی، پر وہ کہہ رہا تھا کہ اُسے واپس ہی نہیں آناتھا۔
” اور جہاں تک بات ہے ماہ نو رکی، تو میں مداری کا بندر نہیں ہوں کہ ہر وقت ناچ ناچ کر ثابت کروں کہ میں بہت خوش ہوں اور مجھے واقعی بیوی بچوں سے محبت ہے۔” اُس نے بڑی تلخی سے بات جاری رکھی تھی اور تاجور اُس کی بات کاٹ نہیں سکی۔ وہ اب اُس سے دبتی تھی۔ سوچ سمجھ کر بات کرتی تھی۔ وہ پتہ نہیں کیوں بل بھر میں بھڑک اُٹھتا، پل بھرمیں کڑوا ہوجاتا۔ وہ بھی گزررہا تھااور گزرگیا تھا۔ اگر کوئی زخم تھا تو بھر کیوں نہیں رہا تھا۔ اُس کا اگر کوئی نقصان ہوا تھاتو صبر کیوں نہیں آرہا تھا ابھی بھی اُسے۔ لوگ تو اتنے عرصے میں مرنے والوں کو بھی رو دھو کر بھول جاتے ہیں۔ تاجور سوچتی ہی گئی تھی اور اُسے یہ احساس نہیں ہوا تھا کہ لوگ مرنے والوں کو بھولتے ہیں، پر موتیا ابھی زندہ تھی اور مراد ہر بار گاؤں آنے کا تصور کرکے ہل جاتا تھا۔ یہ جیسے اپنے آپ کو دو دھاری تلوار پر چلانے جیسا تھا۔ یادوں کی بے رحم دو دھاری تلوار جو باہر سے نہیں اُس کو اندر سے کاٹتی تھی۔ تہہ و تیغ کردیتی تھی اور وہ اپنے آپ کو بچانا چاہتا تھامگر ماں چاہتی تھی وہ نہ بچے وہ آتا رہے اور لہولہان ہوتا رہے۔


٭…٭…٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!