Blog

Dana-Pani-Ep-8

جھوک جیون میں پڑتے ہوئے سوکھے کے درمیان بتول کی گود ایک بار پھر ہری ہوئی تھی۔ وہ سعید کے ساتھ گاؤں میں دو مہینے کے لئے رہنے آئی تھی اور اس بار اس خوشخبری کے ملتے ہی اُس نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ بچے کی پیدائش سے پہلے موتیاکے پاس جاکر اُس سے معافی مانگے گی۔ سعید اُسے گاؤں میں ی چھوڑکر واپس چلا گیا تھا اور بتول دن گن گن کر گزارنے لگی تھی۔ وہ چوتھا مہینہ تھا جب اُس نے بالآخر موتیا کے پاس جانے کا فیصلہ کیا تھا۔ اب تک اُس کو ٹھہرنے والے سارے حمل پہلے تین مہینوں میں ہی ضائع ہوجاتے تھے۔ یہ پہلا حمل تھا جو چوتھے مہینے تک پہنچا تھا ور بتول نے جیسے گھڑی کی سوئیوں کو گن گن کر یہ وقت گزارا تھا۔
” نہ بتول اس حالت میں مت جا تو موتیا کو دیکھنے… تو پریشان ہوجائے گی۔ اللہ نہ کرے تیری حالت بگڑ گئی تو؟”
شکواراں نے اُسے سمجھانے کی کوشش کی تھی۔


”نہیں اماں مجھے جانا ہے ۔ میں آج تک اُس سے چاچا کا افسوس بھی نہیں کرسکی اور اب نہیں جاؤں گی تو پھر آگے چل کر نہیں جاسکوں گی۔”
اُس نے ماں کو تاویل دی تھی۔
”پر بتول اب جانا کیوں ضرور ی ہوگیا ہے؟ تو اتنے ہفتوں سے یہاں ہے،افسوس کرنا ہی تھا تو پہلے کرلیتی۔”
شکوراں کو اب بھی سمجھ نہیں آرہی تھی۔
”بس اماں مجھے نہ روک مجھے جانے دے۔” وہ جھنجلا گئی تھی۔
”چل پھر میں تیرے ساتھ چلتی ہوں۔”
”نہیں اماں میںاکیلے ہی ملنا چاہتی ہوں اُس سے۔ ”
بتول نے ضد کی تھی اور شکوراں کے بغیر ہی گھر سے نکل کھڑی ہوئی تھی۔
اللہ وسائی کے گھر کا دروازہ چوپٹ کھلا تھا ۔ دروازے کا ایک پٹ کواڑوں کے ساتھ بس لٹکا ہوا تھا۔ شاید اُسے سیدھا کرنے کی کوشش کی جاتی تو وہ ہاتھوں میں ہی آجاتا۔ شکوراں نے ایک گہری سانس لے کر جیسے اپنے حواس اور اعصاب پر قابو پایا تھا اور پھروہ اندر گئی تھی۔
صحن کے بیچوں بیچ ایک چارپائی پر موتیا بیٹھی تھی اور بتول کے قدموں کی آہٹ پر اُس نے سر اُتھا کر دیکھا تھا اور بتول ہل کر رہ گئی تھی۔ ہڈیوںکا وہ ڈھانچہ اُس حسن پری کا تو نہیں ہوسکتا تھا جسے سات گاؤں موتیا کے نام سے جانتے تھے۔
یہ صرف بتول نہیں تھی جو اُسے دیکھ رہی تھی، موتیا بھی اُسے اُس ہی طرح پلکیں جھپکائے بغیر دیکھ رہی تھی۔ اُس کی مٹھی میں پکڑے سکے اب اُس کی مٹھی سے گررہے تھے۔ بتول آہستہ آہستہ چلتے ہوئے اُس کے پاس گئی اور پھر اُس کے بالمقابل چارپائی پر بیٹھ گئی۔
” تو نے مجھے پہچانا موتیا؟”
بتول نے مدھم آواز میں موتیا سے پوچھا تھا اور وہ اُس ہی طرح بغیر کسی تاثر کے اُسے دیکھتی رہی۔ بتول کادل یکدم بھر آیا تھا۔ وہ اپنے گناہ کا نتیجہ دیکھ رہی تھی، اور اس کا دل زار زار رونے کو چا ہ رہا تھا۔ اُس نے موتیا کے لئے یہ کبھی نہیں چاہا تھا نہ سوچا تھا ۔اُس کو لگتا تھا چوہدری مراد سے شادی نہ بھی ہوئی تو بھی موتیا کو کوئی نہ کوئی ویسا ہی ملے گا۔ وہ ڈاکٹر بن رہی تھی اور حسن کی دولت سے مالا مال تھی۔ اُس نے کبھی موتیا کو اس حالت میں پہنچادینے کا نہیں سوچا تھا۔
” مجھے معاف کردے موتیا۔ میں تیرے پیر پکڑ کر تجھ سے معافی مانگنے آئی ہوں۔” بتول اب اُس کے پیر پکڑے ہوئے رورہی تھی۔
” میں نے ظلم کیا تجھ پر نہ میں لالچی ہوتی، نہ چوہدرائن کے کہنے پر تجھے پھنسواتی۔ تیرے سامنے سب کچھ کہنے آئی ہوں بتانے آئی ہوں تجھے کہ وہ میں تھی جس نے تجھے اور تیرے پیار کو اُس رات ڈسا تھا۔ میں سعید کو پانے کے لئے لالچ میں آئی تھی۔ میری عقل پر پتھر پڑگئے تھے۔ میں نے چوہدری مراد کو تیرا نہیں ہونے دیا۔ پر اب تو مجھے معاف کردے۔ تیری آہ میری اولاد کو پیدا ہونے سے پہلے ہی کھارہی ہے موتیا۔ مجھے معاف کردے… اس بار پھر پیٹ سے ہوں میں۔ اس بار دعا کردے میرے لئے کہ میرے بچے کو کچھ نہ ہو۔”
بتول نے روتے ہوئے اُس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے پیٹ پر رکھا تھا۔موتیا کچھ دیر اپنا ہاتھ اُس کے پیٹ پر پر رکھے رہی پھر وہ عجیب سے انداز میں مسکرائی تھی ، چارپائی پر پڑے سکوں میں سے ایک سکہ اُٹھا کر اُس نے بتول کا ہاتھ پکڑ کر اُس کی ہتھیلی کے بیچوں بیچ رکھ دیا تھا، پھر اُس نے اُس کی مٹھی بند کردی تھی۔
” تو نے اس سازش کے لئے مجھے معاف کردیا نا موتیا؟ تو نے کردیا نا معاف مجھے؟” بتول نے بے قراری سے اُس سے پوچھا تھا، اور موتیا اُس ہی مسکراہٹ کے ساتھ چپ چاپ اُسے دیکھتی رہی۔
بتول کو اپنے عقب میں دروازے پر کوئی آہٹ سنائی دی تھی۔ وہ کرنٹ کھاکر پلٹی تھی۔ دروازے کے بیچوں بیچ ایک بُت کھڑا تھا ، اور وہ بُت چوہدری مراد کا تھا۔


٭…٭…٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!