“‘مراد کے ابّاآج مراد نے بڑی عجیب بات کی ہے مجھ سے۔”اُس رات تاجور نے چوہدری شجاع کے سونے سے پہلے اُس سے ذکر چھیڑا تھا، وہ اپنی پگ اُتار کر رکھ رہا تھا۔
”مجھ سے تو وہ ہمیشہ ہی عجیب باتیں کرتاہے، تجھے عادت نہیں ہوئی ابھی تک؟”
چوہدری شجاع نے ہنس کرجیسے اُس کا مذاق اُڑایاتھا۔
”وہ کہتاہے اُس نے گاؤں میں نہیں رہنا۔”تاجور نے مزید تمہید باندھے بغیر کہا۔
”ہاں تو گاؤں میں کیوں رہے گا ؟ شہر والی کوٹھی میں رہے وہیں کرے اپنی وکالت… آتا جاتا رہے گاؤں، پر یہاںبیٹھ کر کیا کرنا ہے اُس نے۔” چوہدر ی شجاع نے نیم دراز ہوتے ہوئے جیسے اُس کی بات پر غو کئے بغیر اُسے ہوا میں اُڑایا تھا۔
”وہ کہتاہے کہ اُس نے پاکستان میں ہی نہیں رہنا۔”تاجور نے جیسے اپنی بات کو مزید واضح کرتے ہوئے چوہدری شجاع کا چہرہ دیکھا تھا۔ وہ لمحہ بھر کے لئے ساکت ہوا تھا۔
”یہ تجھے کب کہہ دیا اُس نے؟”وہ لیٹتے لیٹتے اضطرابی اندازمیں اُٹھ کر بیٹھا تھا۔
”آج ہی کہا ہے۔”
”تو نے کوئی بحث کی ہوگی، کوئی جھگڑا کیا ہوگا… اُس نے غصہ میں کہہ دیا ہوگا۔”چوہدری شجاع نے جیسے مراد کی بات کی کوئی تاویل، کوئی جوازڈھونڈنے کی کوشش کی تھی۔
”اُس سے بحث اور جھگڑے کرنا چھوڑدیا ہے میں نے اب چوہدری صاحب۔ اتنا غصہ کبھی آپ نے پوری زندگی مجھ پر نہیں کیا جتنا وہ کرتاہے۔ پر میں بتارہی ہوں آپ کو،اُس نے اب یہاں نہ رہنے کا دل بنا لیا ہے۔”تاجور نے جیسے اُسے خبردار کیا تھا۔
” میں خود بات کروں گا اُس سے…تو خوامخواہ فکریں پال کر بیٹھ جاتی ہے …اور ایسی باتیں فون پر نہیں ہوتیں… آنے دے اُسے بیٹے کو دیکھنے، میں کروں گا بات۔”
”وہ نہیں آرہا بیٹے کو دیکھنے، اُس نے کہہ دیا ہے مجھ سے کہ اُس کے پاس وقت نہیں ہے نہ اب نہ تین مہینے بعد ، نہ چھے مہینے بعد۔” تاجو رنے اُس کی بات کو من و عن چوہدری شجاع کے سامنے دہرادیا تھا۔ وہ چپ کا چپ ہی ہوگیا۔
چوہدری مراد اکلوتا بیٹا تھا او رابھی تو خاندان میں پہلی بار دوسرا وارث آیا تھا، اور وہ کہہ رہا تھا کہ وہ آئے گا ہی نہیں۔
”سو جا تاجور، اس وقت پریشان نہ کر مجھے… صبح اُٹھ کر بات کرتے ہیں۔” اُس نے مزید بات کئے بغیر تاجو ر سے کہا تھا۔
تاجور نے بھی لیٹ کر آنکھیں بند کرلیں تھیں، مگراُس رات اُس نے چوہدری شجاع کی نیندیں اُڑادی تھیں۔ایک بارپھر اُس کی آنکھوں کے سامنے وہ سب کچھ فلم کی طرح چلنے لگا تھا۔ ایک بار پھر اُسے گامو ، اللہ وسائی اور موتیا کا خیال آیا تھا۔ وہ گاؤں کا چوہدری تھا ، گاؤں میں کسی سے بھی بے خبر نہیں رہ سکتا تھا یہ اور بات تھی کہ وہ کسی کے لئے کچھ کرپاتا یا نہ کرپاتا، چوہدری شجاع روز اپنے کھیتوں میں جاتے ہوئے گاموکی بھٹّی سے اُٹھتا دھواں دیکھتا جو کھیتوں کے بیچوں بیچ سے یوں ہوا میں بلند ہورہا ہوتا جیسے وہاں کسی کا دل تھا اور چوہدری شجاع آنکھیں پھیر لیتا۔ وہ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کرسکتا تھا۔ وقت کبھی بھی اُلٹی چال نہیں چلتا اور چلتابھی تو چوہدری شجاع تب بھی اُتنا ہی بے بس ہوتا۔
٭…٭…٭