بتول اگلے کئی دن موتیا کے گھر جانے کے لئے اُ س کی گلی جاتی رہی اور اُس کے گھر کے سامنے سے ہو کر واپس آجاتی۔ گامو کے گھر کا دروازہ اب ٹوٹا ہوا تھا اور اُس کی لکڑیوں میں جگہ جگہ خلا تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے اب کوئی اُسے دیکھنے والا ہی نہیں رہا۔ موتیا کے ساتھ گزرا ہوا اچھا وقت اُس کی آنکھوں کے سامنے گزرتا رہا اور اُس کا پچھتاوا جیسے بڑھتا ہی چلا گیا۔
”اے میرے مالک! جتنا بوجھ میرے سینے پر ڈال دیا ہے، اُتنا چوہدرائن پر بھی تو ڈال… جتنی سزا مجھے میرے گناہ کی دے رہا ہے، اُن کو بھی تو دے۔ میں اولاد کے لئے ترس رہی ہوں اور چوہدرائن کے گھر بیٹے پر بیٹے آرہے ہیں۔ کیا ساری سزائیں غریبوں کے مقدر میں ہی لکھی ہیں؟ امیروں کے گناہ بھی خطا ناقابلِ سزا۔”
بتول اپنے آپ سے خود جنگ لڑنے میں مصروف تھی، اگر اُس کے ساتھ سب کچھ ہونے کی وجہ اُس کا گناہ تھا تو اُس گناہ کو کروانے والی کے گھر پر کوئی آفت کیوں نہیں ٹوٹ رہی تھی۔ وہ عجیب کشمکش کا شکار تھی۔
”موتیا سے بات کرنے کی ہمت نہیںتو کیا میں سب کچھ چوہدری مراد کو بتادوں؟”
اُس نے واپسی کے راستے میں سوچا تھا۔ پر وہ کیا کرے گا۔ اب تک تو وہ بھول چکا ہوگا موتیا کو۔ اب تو پلوں کے نیچے بہت سا پانی بہہ گیا تھا۔ اب کچھ بھی کرنے کا فائدہ نہیں تھا ۔چوہدی مراد اُسے بھول گئے ہوئے تب بھی تاجور اُسے جان سے مار دے گی۔ نہ بھولے ہوئے تو خود چوہدری مراد کے ہاتھوں اُس کی جان جاتی۔ آگے کنواں اور پیچھے کھائی میں بتول کو وہیں کھڑے رہنے میں عافیت نظر آئی تھی جہاں وہ کھڑی تھی۔ اُس کو ابھی زندہ رہ کر سزا کاٹنی تھی۔
٭…٭…٭