Blog

Dana-Pani-Ep-8

وہ گاؤں کے مولوی صاحب تھے جو صبح کنویں کے برابر اپنے کھیتوں میں چرنے والی اپنی بکریوں کے لئے پانی نکالنے آئے تھے۔کنویں میں گرائے جانے والا ڈول کسی چیز سے ٹکرایا تھا اور مولوی صاحب حیران ہوئے تھے۔ منہ اندھیرے اُنہیں یہ اندازہ نہیں ہوا تھا کہ کنویں میں وہ کیا چیز تھی جس سے پانی بھرنے کے لئے پھینکا جانے ولا ڈول بار بار ٹکرا رہا تھا۔ ایک عجیب وہم اُنہیں آیا تھا اور اُس وہم کی تصدیق یا تردید کے لئے وہ سورج نکلنے تک کنویں پر بیٹھے رہے اور سورج نکلتے ہی انہوں نے جھانک کر کنویں میں دیکھنے کی کوشش کی تھی۔ گہرے کنویں کی تہہ میں نظر آنے والے پانی پر اوندھے منہ کسی کا وجود پانی کے ہلکوروں کے ساتھ چل رہا تھا۔ مولوی صاحب غش کھاتے کھاتے بچے تھے ۔ اُس گاؤں کی تاریخ میں اُس کنویںسے ملنے والی وہ پہلی لاش تھی اور وہ لاش گامو کی تھی۔
وہ کب وہاں کودا تھا… گرا تھا یا گرایا گیا تھا یہ کسی کو پتہ نہیں تھا اور یہ سب جانتے تھے۔ گامو کی لاش نے گاؤں والوں کو چُپ لگادی تھی اور ایسی ہی چپ چوہدری شجاع کو بھی وہاں آکر لگی تھی۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آیا کہ اللہ وسائی کو کیسے اطلاع دیتے۔ اُن سب کو لگتا تھا کہ اُسے سنبھالنا مشکل ہوجائے گا، پر ایسا نہیں ہوا تھا۔ وہ کنویں پر آئی تھی اور گاموکی لاش کے سرہانے چُپ چاپ بیٹھ گئی تھی۔



گاؤں والوں کو یقین تھا وہ صدمے میں تھی۔ وہ اُنہیں کیا بتاتی کہ گامو کی مو ت کا صدمہ وہ اُس دن اُٹھا چکی تھی جب اُس کی بیٹی کی بارات نہیں آئی تھی۔ وہ سارے بین جو اُس نے آج کرنے تھے،اُس ہی دن کرلئے تھے۔ یہ گامو تو بس ایک چلتی پھرتی لاش تھی۔ وہ ہنستا گاتا گامو تھوڑی تھا۔ اُس کا سر گود میں رکھے وہ اُس کے گیلے بال یوں سمیٹتی رہی جیسے وہ سویا ہوا تھا۔ پھر گاؤں والوں نے اللہ وسائی کو حق باہو کا کلام پڑھتے سُنا تھا۔ اپنی توتلی آواز میں۔ وہی کلام جو گامو پڑھتا تھا۔
الف اللہ چنبے دی بوٹی من مرشد وچ لائی ہو
نفی اثبات دا پانی ملیا ہر رگے ہرجائی ہو
اندبوٹی ر مشک مچایا تے جاں پھلاں تے آئی ہو
جیوے مرشد کامل باہو، جین اے بوٹی لائی ہو
چوہدری شجاع اُس توتلی آواز کی بازگشت میں وہاںسے واپس حویلی گیا تھا۔ اللہ وسائی نے اُس کی کوئی بھی مدد لینے سے انکار کردیا تھا۔ اُسے گامو کو چوہدریوں کے پیسوں کا کفن نہیں پہنانا تھا۔
گاموگاؤں کا پہلا ”کمّی” تھا جس نے موت کے بعد بھی چوہدریوں کی امداد ٹھکرائی تھی۔
” کنویں میں گر کیسے گیا؟”
تاجور نے خبر ملنے پر اتنے عام سے لہجے میں یہ سوال پوچھا تھا کہ چوہدری شجاع نے کوئی جواب ہی نہیں دیا تھا۔ وہ بس غمزدہ اپنا حقہ گڑگڑاتا رہا تھا۔ تاجور اُس کی شکل دیکھتی رہی، پھر کوئی جواب نہ ملنے پر اُس نے کہا۔
”اچھا میں ملازموں کو کہتی ہوں کھانے کا انتظام کردیں اُس کے گھر تعزیت کے لئے آنے والوں کے لئے۔”
”مت بھیجنا کچھ بھی اُس کے یہاں… اللہ وسائی کچھ نہیں لے گی۔” چوہدری شجاع نے عجیب سے لہجے میں اُس سے کہا تھا۔
” نہیں تو نہ سہی…خیرات ،زکوة کے لئے گاؤں میں کمّی بہتیرے۔” تاجور نخوت سے کہہ کر وہاںسے چلی گئی تھی۔
گامو کا جنازہ اُس گاؤں کی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ تھا۔ یوں لگتا تھا چرند پرند بھی اُس کے جنازے میں شرکت کے لئے آگئے تھے۔ وہاں کسی کو یہ ماننے میں تامل نہیں تھا کہ وہ نیک تھا۔ اور اللہ وسائی کو یقین تھا وہ رب کے پاس گیا تھا موتیا کے لئے۔



٭…٭…٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!