”پتر تو نے ماں باپ سے ملنے نہیں آنا؟ بیٹے کو دیکھنے نہیں آنا؟” یہ چوہدری شجاع تھا جس نے چھے ماہ گزرنے کے بعد بھی مراد کے نہ آنے پر اُسے فون پر پوچھا تھا۔
”ابّا جی چھٹی نہیں ملتی۔”مراد نے جواباً اُسے کہا تھا۔
” تو چوہدریوں کا پتر ہے… انگریزوں کا نوکر تھوڑی ہے کہ چھٹی نہیں ملتی۔ چھوڑدے ایسی نوکری جس میں تجھے ماںباپ سے ملنے اور اولاد کو دیکھنے کے لئے بھی چھٹی نہ ملے۔”
چوہدری شجاع کو غصہ آگیا تھا۔
” ایسا نہیں ہوتا یہاں پر ابا جی… یہاں چھوٹی چھوٹی باتوں پر تاؤ کھاکر نوکریاں نہیں چھوڑسکتے۔”
مراد نے ٹھنڈے لہجے میں باپ سے کہا تھا۔
” پر میں آؤں گا، چکر لگاؤں گا… نہ آسکا تو پھر آپ لوگوں کو بلالوں گا۔” مراد نے ساتھ باپ کو تسلی بھی دی تھی۔
” ہم نے کیا کرنا ہے وہاں آکے پتر؟ تیرا یہاں آنا ضروری ہے… تجھے گاؤں یاد نہیں آتا؟”
مراد کے دل میں ایک ہوک سی اُٹھی تھی۔ گاؤں کی یاد کو دفن کرکے ہی تو وہ زندہ تھا ورنہ اُس کا پورا وجود پھوڑا بن گیا تھا اُن یادوں کے درمیان۔
”ابا جی گاؤں کی بات نہ کریں۔ اپنی بات کریں۔آپ ٹھیک ہیں؟”
مراد نے بات بدلی تھی۔
”ہاں میں ٹھیک ہوں… وہ گامو مرگیا۔”
پتہ نہیں خیالوں کی وہ کون سی رو تھی جس میں بہہ کے چوہدری شجاع نے اُسے یہ خبر دی تھی اور اُسے یہ خبر دے کر جیسے وہ پچھتایا تھا۔
دوسری طرف فون پر مراد کے سانس کی آواز بھی نہیں تھی۔ چوہدری شجاع کو لگا فون بند ہوگیا تھا۔
” ہیلو پتر…تو سن رہاہے نا؟”
”ہاں۔” دوسری طرف سے مراد نے ایک گہرا سانس لیا تھا۔
” کیسے؟”
اُس کی آواز میں ایک عجیب سی اُدااسی تھی۔ اُس نے یہ نہیں پوچھا تھا کہ کون گامو۔ گامو کو سارا گاؤں پہچانتا تھا اور مراد تو گامو کو زندگی کے آخری لمحے تک نہیں بھلا سکتا تھا۔
” کنویں سے لاش ملی ہے۔”
چوہدری شجاع نے مدھم آواز میں کہا تھا۔ مراد ایک بار پھر گونگا ہوگیا تھا، ایک بار پھر اُس کے پاس سارے سوال ختم ہوگئے تھے۔ کنویں سے لاش کیسے مل سکتی تھی۔ اُس میٹھے پانی میں گامو کے لئے موت کیسے ہوسکتی تھی جو اُس کے ہاتھ سے پورے گاؤں کی پیاس بجھاتا تھا۔ مراد وہ سوچنا نہیں چاہتا تھا جو سچ تھا اورہوچکا تھا اور جو سچ تھا وہ اُس وقت اُس کے ہوش اُڑارہا تھا ۔اُس نے فون بند کردیا تھا۔ ایک لفظ بھی اور کہے بغیر۔ یادوں کے جھکڑ چلنے لگے تھے اور ان جھکڑوں میں مشک اُٹھائے گامو کے ساتھ ساتھ موتیا کا چہرہ بھی چمک رہا تھا۔
” لوگ کہتے ہیں حادثہ ہے شاید پانی نکالتے ہوئے…”
چوہدری شجاع نے آخری جملہ کہتے کہتے ادھورا چھوڑدیا تھا اور وہ جملہ اب اُس کے کانوں میں گونج رہا تھا۔ و ہ اپنے باپ سے پوچھنا چاہتا تھا کہ اُس کے گھر میں کیا اب موتیا تھی؟ اور وہ وہاں نہیں تھی تو کہاں تھی؟ موتیا کی خوشبو اُس کے اردگرد چاروں طرف پھیلنے لگی تھی یوں جیسے وہ کسی دُھند اور کہر میں گھرگیا تھا۔
٭…٭…٭