”تو کدھر جارہی ہے اللہ وسائی؟” حویلی کی طرف سے آتی ہوئی عورتوں میں سے ایک نے اللہ وسائی سے کہا جو حویلی جانے والے راستے پر اُنہیں نظر آئی تھی۔
”میں چوہدریوں کی بہو دیکھنے جارہی ہوں بارات میں نہیں جاسکے میں اور گامو۔ میری طبیعت خراب تھی صبح سے۔ اب سنبھلی ہے تو آئی ہوں۔” اللہ وسائی نے کہا۔
”ارے جاکر آرام کر! اس حالت میں اس طرح لور لور نہیں پھرتے اور چوہدریوں کی بہو نے گاؤں کی کسی عورت کو پاس بھی نہیں پھٹکنے دیا۔ تو بھی وقت ہی کھوٹا کرے گی خوامخواہ جاکے۔” ایک عورت نے اُسے منع کیا تھا۔
”نہ نہ میں تو ضرور جاؤں گی گامو ماشکی کی بیوی ہوں مجھے کیسے انکار کریں گے چوہدری صاحب۔”
اللہ وسائی نے اُن کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے آگے قدم بڑھادیئے تھے۔ موسلادھار بارش اب ہلکی پھوار میں تبدیل ہوگئی تھی۔ مگر پھر بھی حویلی پہنچتے پہنچتے اللہ وسائی کے کپڑے بھیگ چکے تھے۔
بڑی چوہدرائن کے ہوتے ہوئے اللہ وسائی حویلی کے کام کاج اور دانے لینے کے لئے آتی رہتی تھی۔ اس لئے اُسے حویلی کے ہر کمرے کا پتہ تھا۔
وہ شکوراں تھی جس نے بھیگے ہوئے کپڑوں والی اللہ وسائی کو روکا تھا جس کے ہاتھوں میں موتیے کے پھولوں کی ایک ٹوکری تھی اور جو اپنی چپل باہر والے برآمدے میں اُتار کر اندر آگئی تھی۔
”کدھر آرہی ہے تو؟” شکوراں نے اُسے چوہدری شجاع کے کمرے کے باہر جھڑکا اور اللہ وسائی کو بُرا لگا۔
”میں گامو ماشکی کی بیوی ہوں اللہ وسائی ۔ بہو کی منہ دکھائی کے لئے آئی ہوں۔ ”اندر سنگھار میز کے آئینے کے سامنے دوپٹہ ٹھپک کرتی تاجور باہر سے آئی آواز سن کر ساکت ہوئی تھی۔
”تجھے بتایا نہیں کسی نے کہ بہو صاحبہ نہیں ملیں گی کسی سے ۔” شکور اں نے اُسی انداز میں اس سے کہا۔
”مجھ سے مل لیں گی۔ میں گامو ماشکی کی بیوی ہوں۔ وہ ماشکی ہے سارے گاؤں کا… اُسے کوئی انکار…”شکوراں نے بے حد بدتمیزی سے اُس کی بات کاٹی
۔ ”تجھے ایک بار کہہ دیا نا کہ بہو صاحبہ نہیں ملیں گی اور …”
اس سے پہلے کہ شکوراں کچھ کہتی اندر سے تاجور نے آواز دی تھی۔
”اسے آنے دو اندر۔ ”شکوراں بے یقینی سے کھڑی رہ گئی۔
اللہ وسائی نے بڑے تفاخر سے اُسے دیکھا اور اُس دروازے کی طرف بڑھ گئی جو شکوراں نے اُس کے لئے کھولا تھا۔
اللہ وسائی کمرے میں جھجکتے ہوئے داخل ہوئی تھی۔ تاجور سامنے ہی کھڑی تھی۔ اور اُس پر پہلی نظر ڈالتے ہی اللہ وسائی فدا ہوگئی تھی ۔
”یا اللہ میری بیٹی کو بھی ایسا حسن دینا کہ جو دیکھے میری طرح دیکھتا ہی رہ جائے۔” اُس کے اندر کہیں ایک خواہش پیدا ہوئی تھی۔
تاجور بھی اُسے اسی طرح پلکیں جھپکائے بغیر دیکھ رہی تھی۔ اللہ وسائی آگے بڑھی تھی اور اُس نے پھولوں کی وہ ٹوکری تاجور کے قدموں میں رکھ کر اُسے مہندی رچے حسین پیر پکڑ کر رونا شروع کردیا تھا۔ ایک لمحہ کے لئے تاجور حواس باختہ ہوئی۔
”پیر صاحب کی دُعا سے دس سال بعد آج گود ہری ہوئی ہے میری۔ انہوں نے دُعا دی تھی مجھے کہ بیٹی ہوگی اور میں آج اُن کی بیٹی کے پیر دھونے آئی ہوں۔” اللہ وسائی نے روتے اور تتلاتے ہوئے تاجور کو بتایا تھا اور تاجور کے جلتے وجود پر جیسے پانی نہیں شبنم گری تھی۔ تو اُس کو کھ میں آنے والی اولاد بھی اُس کے باپ کی دعاؤں کے طفیل تھی اور جس کی کوکھ ہری ہوئی تھی وہ احسان فراموش نہیں نکلی تھی نہ ہی اپنی اوقات بھولی تھی۔ وہ وہیں آکر بیٹھی تھی جہاں اُسے بیٹھنا چاہیے تھا۔
تاجور کی آگ نہیں بجھی غصہ ٹھنڈا ہوگیا تھا۔
”چل اُٹھ پیر دھونے کی ضرورت نہیں ہے۔”
اُس نے اللہ وسائی کے ہاتھوں سے اپنے پاؤں چھڑالئے تھے۔ اللہ وسائی نے دوپٹے سے اپنے آنسو صاف کئے اور وہیں زمین پر بیٹھے موتیے کے پھولوں کے گجرے والی ٹوکری تاجور کی طرف بڑھا دی۔
”ہماری اوقات بس یہی لانے کے برابر ہے۔ پیر صاحب نے بھی میرے گامو کو یہی پھول دیئے تھے میں بھی آپ کے لئے انہیں پھولوں کا گجرہ بنالائی ہوں۔”
وہ تتلاتے ہوئے کہتی گئی تھی۔ تاجور نے ایک نظر اُن پھولوں کو دیکھا پھر اُس سے کہا ۔
”ٹھیک ہے رکھ دے اسے وہاں… اورشکوراں کسی سے کہہ کراسے پانی پلادے۔” یہ جیسے اس بات کا اشارہ تھا کہ اللہ وسائی اب یہاں سے جائے۔
شکوراں جی بی بی صاحبہ کہہ کر اُسے لے کر وہاں سے چل دی تھی۔ تاجور فرش پر پڑی پھولوں کی اُس ٹوکری کو دیکھتی رہتی جس سے اٹھنے والی خوشبو نے لمحوں میں اُس کے پورے کمرے کو معطر کردیا تھا ۔ شکوراں کچھ دیر بعد اندر آئی اور اُس نے آکر ٹوکری اٹھاتے ہوئے کہا۔
”یہ کہاں رکھوں؟”
”باہر پھینک دو۔” تاجور نے عجیب بے نیازی سے کہا۔ وہ اب سیج پر بیٹھنے کے لئے تیار ہورہی تھی۔
شکوراں پھول لئے باہر آگئی مگر اُنہیں پھینکنے کی بجائے اُس نے وہیں برآمدے میں انہیں دروازے کی چوکھٹ پر لٹکادیا۔ موتیا کے گجرے وہاں لٹکے اب اپنی خوشبو ہر طرف پھیلا رہے تھے۔ وہ چوہدری شجاع تھا جس نے اندر جاتے ہوئے موتیے کے اُن خوبصورت گجروں کو دیکھا تھا اور اُنہیں تاجور کے کلائیوں میں پہنانے کے لئے اُتارلیا تھا یہ سمجھتے ہوئے کہ وہ گجرے تاجور کے لئے اُس کے باپ نے اپنے باغ سے چنوا کر بنوائے تھے۔
اُس رات اپنی سیج پر موتیے کے اُن گجروں کو پہنتے ہوئے تاجور کو ایک لمحہ کے لئے بھی یہ خیال نہیں آیا کہ وہ اللہ وسائی کے ہاتھوں کے بنے گجرے تھے جنہیں اُس نے باہر پھینکوایا تھا مگر جو چوہدری شجاع کے ہاتھوں اُس کی کلائیوں میں آکر لپٹ گئے تھے۔ اُس کی سیج کی زینت بن گئے تھے۔
٭…٭…٭