Blog

Dana-Pani-Ep-1

”رُک کیوں گئے بھائی؟ پڑھتے رہو۔” پیر ابراہیم نے اُس سے بڑی نرمی سے کہا تھا اور جیسے گامو کو موقع دے دیا اپنا دل کھول کر رکھنے کا۔
” کیا پڑھنا ہے بھائی۔ پیر صاحب کو ملنے آئے تھے۔ وہ ملے ہی نہیں۔ دس میل چل کر آئے ہیں اب پھر دس میل چل کر جائیں گے۔” پیر ابراہیم نے اُس کی بات بغور سنی پھر اُس سے پوچھا۔
”کہاں سے آئے ہو؟” گامو اب مشک کا باقی پانی دوسرے درختوں میں ڈالنے لگا تھا۔
”جھوک جیون سے۔” اُس نے پیر ابراہیم کی طرف دیکھے بغیر کہا۔
”پانی کیوں دے رہے ہو درختوں کو؟” پیر ابراہیم کو جیسے اُس کی حرکت بے حد عجیب لگی تھی۔
”گامو ماشکی ہوں ۔ پانی پلانا کام ہے میرا، پیر صاحب کے لئے اپنے کنویں کا میٹھا پانی لائے تھے۔ میری بس پانی جتنی ہی اوقات تھی پیر صاحب تو ملے نہیں ۔ یہ سوکھے ہیں تو انہیں پلارہا ہوں تاکہ پیر صاحب کو نہیں تو ان درختوں کو گامو ماشکی یاد رہ جائے۔” پیر ابراہیم اُس کی بات پر مسکرائے پھر آگے بڑھ کر انہوں نے دونوں ہاتھوں کی اوٹ بناکر گامو سے کہا۔
”لاؤ پلاؤ تاکہ میں بھی یاد رکھوں تمہیں۔ ‘ ‘ گامو ماشکی نے اُن کی بات پر توجہ دیئے بغیر مشک کو بسم اللہ کہہ کر منہ کھول کر پیر ابراہیم کی ہاتھوں کی اوٹ میں ڈالنا شروع کردیا تھا۔ پیر ابراہیم نے پانی کے کچھ گھونٹ لئے پھر گیلے ہاتھ چہرے پر پھیرتے ہوئے کہا۔



”میٹھا ہے تمہاری آواز کی طرح۔” اس سے پہلے کہ گامو کچھ کہتا درختوں میں دو آدمی لپکتے آئے تھے اور اُن میں سے ایک نے پیر ابراہیم سے کہا۔
”پیر صاحب یہ کیا کررہے ہیں آپ میں پیالے میں لاکر پلاتا ہوں آپ کو۔” گامو ماشکی بے اختیار بدکا تھا اور اس نے ہراساں ہوکر پیر ابراہیم کو دیکھا جو اب پانی پی کر سیدھے کھڑے ہورہے تھے۔
”پیر ابراہیم صاحب ہیں آپ؟ ” اُس نے اُن سے پوچھا۔ پیر ابراہیم نے اُس کی بجائے ان دونوں آدمیوں سے کہا۔
”تم لوگ جاؤمیں تھوڑی دیر میں آتا ہوں مسجد۔” وہ آدمی بے حد احترام میں بر ق رفتاری سے وہاں سے چلے گئے تھے۔
”پیر صاحب ہمارے لئے دعا کردیں۔” اللہ وسائی نے تتلاتے ہوئے پیرا براہیم سے کہا تھا۔ پیر ابراہیم نے نظر اُٹھا کر اُسے دیکھے بغیر گامو سے بڑی نرمی سے پوچھا۔
”کیا پریشانی ہے؟”
”دس سال ہوگئے ہیں پیر صاحب اولاد نہیں ہے۔ خالی گھر ہے ہمارا۔ لوگ کہتے ہیں آپ سیّد ہیں سیّدوں کی دُعا کبھی رد نہیں ہوتی۔” گامو ماشکی کو رونا آگیا تھا ۔ پیر ابراہیم کے انداز اور آواز میں کچھ نہ کچھ ایسا تھا کہ اُس کا دل چاہ رہا تھا وہ اُن سے لپٹ کر دھاڑیں مار مار کر روئے۔
”میں سیّد نہیں ہوںمیری بیوی سیدانی تھیں۔ میں توگنا ہ گار ہوں سب جیسا۔” پیر ابراہیم نے بے اختیار کہا تھا۔
”اپنے آپ کو گناہ گار کہہ کر ہم کو گناہ گار نہ کریں پیر صاحب۔ بس ہمارے حق میں دُعا کردیں۔” اللہ وسائی نے ہاتھ جوڑ کر کہا تھا۔
پیر ابراہیم یک دم خاموش ہوئے تھے اُن پر جیسے کوئی عجیب سی کیفیت آنی شروع ہوگئی تھی۔ اُن کا سرخ و سفید رنگ یک دم بہت سرخ ہونے لگا تھا اور چہرے پر پسینے کے قطرے نمودار ہوگئے تھے کچھ بھی کہے بغیر انہوں نے اپنے ہاتھ کی کلائی میں لپٹے موتیوں کے ایک ہار کو اُتار کر گامو کے اُس ہاتھ کی کلائی میں پہنانا شروع کردیا جس سے وہ مشک کا منہ کھولتا تھا۔
”بیٹی دے گا اللہ سائیں… نیک… روپ والی… سات گاؤں جس کی بات کریں گے… اللہ نیک نصیب کرے اُس کے… نیکوں سے واسطہ ڈالے۔”
وہ کہہ کر رُکے بغیر وہاں سے چلے گئے تھے اور گامو اور اللہ وسائی اُنہیں تب تک جاتے ہوئے بے یقینی سے دیکھتے رہے جب تک وہ غائب نہیں ہوگئے تھے۔ اُن کے جانے کے بعد گامو نے اپنی کلائی میں پہنائے جانے والے اُس ہار کو پہلی بار دیکھا تھا جس کی خوشبو امرودوں کے باغ کی خوشبو کو گہنا ہی تھی۔ اُس نے اللہ وسائی کو دیکھا۔ وہ روتی جارہی تھی۔



٭…٭…٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!