Blog

Dana-Pani-Ep-1

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
دانہ پانی
قسط نمبر01
عمیرہ احمد

الف اللہ چنبے دی بوٹی من وچ مرشدلائی ہُو
نفی اثبات دا پانی ملیا ہر رگ ہر جائی ہُو
(الف سے اللہ کا نام شروع ہوتا ہے، میرے مرشد نے میرے دل میں چنبیلی(اللہ کی محبت ) کی قلم لگائی ہے
میں نے اس پودے کی نفی اثبات کے پانی سے آبیاری کی (نفی:لا الہ،اثبات: الا اللہ) اور اس کی خوشبو کو اپنے ہر رگ و ریشے میں بسالیا۔)
گامو ماشکی کی بلند آواز ہر روز کی طرح اُس صبح بھی جھوک جیون کی فضاؤں میں دور تک کوئل کی کوک کی طرح گونج رہی تھی۔ وہ حق باہو کا کلام پڑھنا شروع ہوا تھا۔ ہر روز کی طرح فجر کے بعد گاؤں کے کنویں پر چرخی کے ساتھ اپنی مشک باندھ کر کنویں میں پھینکتے ہوئے گامو بڑے جذب سے وہ کلام شروع کردیتا تھا۔
پیر ملے تے پیڑ نہ جاوے، اوہ پیر کیہہ کرتاہُو
جس مُرشد تھیں رُشد نہ ہووے، اوہ مرشد کیہہ کرنا ہُو
(پیر ملے اور درد نے جائے ایسے پیر کو مت مانو
جس مرشد سے رشد نہ ملے، اس مرشد کو کیا کرنا)
کنویں کی چرخی گرر گرر کرکے گھومتی جارہی تھی اور اُس پر لپٹی رسی مشک کے وزن سے کھلتی جارہی تھی اور گامو چرخی کو اور تیزی سے گھماتا حضرت سلطان باہو کا کلام بڑے جذب سے پڑھتا ہوا کسی اور جہاں پہنچا ہوا تھا۔ نہ اُسے قرآن آتا تھا نہ حدیث بس آتا تھا تو حق باہو کا کلام جو اُس نے اپنے باپ کو سن سن کر رٹا تھا۔ بچپن میں کبھی ماں باپ نے قرآنی قاعدہ پڑھایا تھا اور پہلے سپارے سے پہلے ہی باپ کی موت نے غلام محمد کے ہاتھ میں سپارے کی جگہ پانی کی مشک پکڑادی جو اُس کے قد سے بھی بڑی تھی۔ اور وہ غلام محمد سے گامو ماشکی ہوگیا اور یہ کام اُس نے بڑی خوشی خوشی اپنے سرلیا تھا۔ وہ جدّی پشتی ماشکی تھا… باپ دادا بھی یہی کام کرتے تھے اور اُسے بھی باپ کے ساتھ بچپن سے ہی گاؤں کے کنویں پر جاکر چرخی گھمانا اور مشک بھرنا اچھا لگتا تھا پر اُ س سے بھی زیادہ مزے کا کام اُس پانی کی مشک سے پورے گاؤں کے گھروں کے مٹکے اور برتن بھرنا تھا اور پھر گلیوں کی سوکھی مٹی پر پانی چھڑکنا اور سوکھی مٹی کا یوں نم ہوکر زمین پر بیٹھنا جیسے وہ اُس پانی کے لئے ہی ترسی ہوئی ہو۔ گامو تین سال کی عمر سے باپ کے ساتھ ساتھ صبح سویرے اپنے ننھے قدموں سے کسی بڑے کی طرح چلتے ہوئے جھوک جیون کے اُن پچاس، ساٹھ گھروں کے دروازے دروازے جاتا تھا۔ اُس کا باپ پانی چھڑکتا حق باہو پڑھتا جاتا اور وہ کلام ننھے غلام محمد کے ذہن میں جیسے نقش ہوتا گیا تھا۔ اُس کے باپ کی کُوک میں ہُوک نہیں تھی اور گامو کی آواز میں ہُوک ہی ہُوک تھی۔
جس ہادی تھیں نہیں ہدایت، اوہ ہادی کیہ کرنا ہُو
مرشد عین حیاتی باہو، لوں لوں وچ سمایا ہُو
(جس ہادی سے ہدایت نہ ملے، اس ہادی کے پیچھے چلنے سے کیا فائدہ؟
مرشد تو وہ ہے جو عین حیات ہو، نس نس میں سمایا ہو)



مشک کنویں کی تہہ میں پانی سے ٹکرائی تھی اور چرخی گھومنا رُک گئی۔ ہلکے اندھیرے میں بھی گامو کو پتہ چل گیا تھا کہ مشک پانی سے ٹکراگئی تھی اور اب پانی میں ڈوبتے ہوئے وہ اُس پانی کو اپنے اندر سمو رہی تھی۔ گامو کنویں کے کنارے کھڑا بغیر دیکھے بھی جیسے سب دیکھ رہا تھا۔ کتنی دیر میں مشک پانی تک پہنچتی کتنی دیر میں پانی سے بھر جاتی اور پھر کب واپس کھینچ لینی تھی۔ چرخی کے گرد لپٹی باقی ماندہ رسی یک دم کھل کر تن گئی تھی ۔ گامو کو پتہ تھا اب اُسے مشک واپس کھینچ لینی تھی۔
کیتی جان حوالے رب دے، ایسا عشق کمایا ہُو
مرن تھیں پہلے مرگئے باہو، تاں مطلب نوں پایا ہُو
(ہم نے ایسا عشق کمایا ہے کہ اپنی جان صرف رب کے حوالے کردی ہے
مرنے سے پہلے ہی جان جان آفریں کے سپرد کردی ہے، تب کہیں جاکر مراد پائی ہے)
پو پھٹ رہی تھی جب گامو مشک کھینچ رہا تھا اور چرخی اُسی گرر گرر کی آواز کے ساتھ اب اُلٹا گھومتے ہوئے رسی کو لپیٹ رہی تھی۔ جب تک مشک کنویں سے باہر آئی گاؤں کے چند آوارہ کُتے ہر روز کی طرح پیاس سے ہانپتے کانپتے زبانیں لٹکائے کنویں کے پاس جمع ہوگئے تھے۔ وہ گامو پر کبھی نہیں بھونکتے تھے کیونکہ صبح شام وہی تھا جو مشک کنویں سے نکال کر سب سے پہلے کنویں کے پاس بنے اک گڑھے میں اُن کے لئے پانی ڈالتا تھا۔ وہ کتے گامو سے بھی پہلے اُس گڑھے کے گرد اکٹھے ہو گئے تھے۔ مشک سے چھلکتا ٹھنڈا پانی اُس گڑھے میں گرنے لگا اور تب تک گرتا ہی گیا جب تک آخری کتا بھی اپنی پیاس بجھاکر ہٹ نہیں گیا تھا۔
جاں دو مرشد کا سۂ دِتڑا، تاں وی بے پرواہی ہُو
راتیں جاگیاں کیہ ہویا جے ، مرشد جاگ نہ لائی ہُو
(جب سے مرشد نے میرے ہاتھ میں طلبِ حق کا کاسہ دیا ہے، تب سے میں دنیا سے بے پرواہ ہوگیا ہوں
راتیں جاگنے سے کیا ہوگا، جب تک مرشد دل میں تڑپ نہ پیدا کرے گا)
جھوک جیون کی صبح اور شام گامو ماشکی کے پانی اور حق باہو کے کلام سے ہوتی تھی۔ نہ مشک کا پانی ختم ہوتا تھا نہ گامو کی آواز کا سوز… نہ اُس کی ہوک… جو بھی گاموکو سنتا تھا بس سنتا ہی رہ جاتا تھا۔ وہ اس گاؤں کا pied piperتھاجو صبح سویرے پانی بھرتا چڑکاتا پیاس بجھاتا پورے گاؤں کے چرند پرند کو اپنے پیچھے لگائے پھرتا رہتا تھا۔ گاؤں کا پتہ پتہ بوٹا بوٹا جیسے گامو کی آواز ، اس کے پیروں کی چاپ، اُس کی مشک سے چھلکتے پانی کی مہک اور مٹھاس کو پہچانتا تھا۔ وہ کتے کنویں پر گامو کی مشک سے پانی پیتے پھر گامو کے ساتھ ساتھ پورے گاؤں میں تب تک گھومتے پھرتے جب تک گامو مشک بھر بھر کر گاؤں کی گلیوں میں پھرتا رہتا اور پھر جب وہ اپنے گھر چلا جاتا تو وہ بھی لوٹ جاتے اور پھر شام کو پھر کنویں پر گامو کے انتظار میں بیٹھے ملتے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!