Blog

Dana-Pani-Ep-2

بسم اللہ الرحمن الرحیم
دانہ پانی
قسط نمبر02
عمیرہ احمد

وہ ایک سانپ تھا… گھپ اندھیرے کی طرح سیاہ ، تارکول جیسی چمک لئے… شاید اس سے بھی زیادہ … اُس کے جسم پر سیاہ رنگت میں بھی اُس کی جلد کے نقش و نگار یوں نمایاں تھے جیسے کسی انسان کے تیکھے نقوش… اُس کی گول چمکدار سیاہ آنکھیں جن میں ہیبت کے علاوہ کوئی تاثر نہیں تھا اور اُس کا کسی تاج کی طرح تنا ہو اپھن جو اُس کے کنڈلی مارے ہوئے وجود پر کسی چھتری کی طرح جھک جھک کر تنتا پھر کھڑا ہوجاتا۔



وہ اُس جنگل میں کب سے اُس کا پیچھا کررہا تھا اور کیوں… یہ اندازہ اُسے نہیں ہوا تھا پر اُس کے وجود کی سرسراہٹ اُس کے کانوں میں کسی سیٹی کی گونج کی طرح چپکی ہوئی تھی۔
اُس نے اُسے بل کھاتے دیکھاتھا۔ اُس نے اُسے لہراتے، برق رفتاری سے اپنے پیچھے آتے بھی دیکھا تھا اور اب جب وہ اُن درختوں کے بیچوں بیچ اپنے عقب میں آنے والے اُس دشمن کا سامنا کرنے کے لئے رُک گئی تھی تو وہ اپنا پھن اٹھائے کنڈلی مار کر اُس کے سامنے بیٹھ گیاتھا۔ وہ دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے ساکت تھے۔ اُس سانپ کو اگر اُس کی آنکھوں میں خوف دیکھنے کی خواہش تھی تو اُس کی خواہش پوری نہیں ہوئی تھی۔ وہ خوفزدہ نہیں تھی اور تب ہی اُس نے سانپ کے عقب میں کسی کے قدموں کی چاپ سنی تھی۔ سانپ برق رفتاری سے پلٹا تھا اور اپنے عقب میں کھڑے اُس مرد کو دیکھ کر پھنکارا تھا۔ تب ہی موتیا نے پہلی بار اُس مرد کا چہرہ دیکھا تھا اور وہ حیران رہ گئی تھی وہ وہاں بھی آگیا تھا اور تب ہی اُس نے سانپ کی کنڈلی کو آہستہ آہستہ کھلتے دیکھا۔ اُس مرد کی نظر موتیا پر تھی۔ وہ جیسے اُس کے حسن سے مبہوت تھا اور موتیا نے اُس سانپ کو اس مرد کے پیروں کی طرف جاتے دیکھا اور تب اُس نے پہلی بار خوف محسوس کیا تھا اور تب ہی اُسے یہ احساس بھی ہوا تھا کہ وہ ناگن تھی… کوبرا… اُس نے چلانا چاہا اور وہ چلانہیں پائی وہ کوبرا اُس مرد کے پیروں کے پاس پہنچ چکا تھا۔
موتیا ایک جھٹکے سے اُٹھ کر بیٹھی تھی وہ لرز رہی تھی اور اُس کا جسم پسینے سے شرابور تھا۔ وہ آنکھیں کھول کر بھی جیسے خواب ہی دیکھ رہی تھی اور اُس کا حلق خشک ہورہا تھا۔ صحن میں گامو اور اللہ وسائی اُس کے دائیں بائیں اپنی اپنی چارپائیوں پر رات کے اس پچھلے پہر گہری نیند سو رہے تھے۔ دور کہیں کسی کُتے کے بھونکنے کی آواز آئی تھی پتہ نہیں وہ کتا تھا یا گیدڑ۔ موتیا نے جیسے عجیب سی کیفیت میں آواز سنی تھی۔ ٹھنڈی ہوا کے جھونکے جو گامو کے گھر میں لگے ہوئے موتیا کے پھولوں سے مہکے ہوئے تھے۔ انہوں نے اندھیرے میں چارپائی پر بیٹھی موتیا کو جیسے بہلایا تھا۔ موتیا ٹانگوں پر پڑے کھیس کو ہٹاتے ہوئے زمین پر کھڑی ہوگئی تھی۔ اپنی چپل کو پاؤں سے ٹٹولتے ہوئے اُس نے یک دم چپل پہننے کا ارادہ چھوڑ دیا۔ اُس کی چپل کی آواز سے گامو اور اللہ وسائی جاگ جاتے۔
ننگے پاؤں وہ صحن میں پڑے لکڑی کے اُس سٹینڈ کی طرف گئی تھی جس پر پانی کا ایک کچا مٹکا پڑا تھا اور مٹکے کے منہ کے گرد موتیا کے پھولوں کا ایک ہار لپٹا ہوا تھا جو اللہ وسائی صبح سویرے ہی پرو کر چڑھا دیتی۔ گلاس اُٹھا کر مٹکے کے منہ پر پڑا ڈھکن ہٹا کر موتیا نے مٹکا ٹیڑھا کرتے ہوئے گلاس میں پانی بھرا اور پھر غٹاغٹ پی گئی۔ پانی نے جیسے اُس کی اُکھڑی ہوئی سانس بحال کی تھی پر اُس کی نیند اڑ گئی تھی۔ گلاس واپس رکھ کر موتیا نے سر اُٹھا کر چودہویں کے چمکتے ہوئے چاند کو دیکھا جس کی روشنی نے اُس کے گھر کے صحن کو عجیب سحر خیز چاندنی سے روشن کررکھا تھا۔ اُسی طرح دبے پاؤں وہ اپنی چارپائی کی طرف آکر لیٹ گئی تھی۔ پورا آسمان ستاروں سے بھرا ہوا تھا اور چاند اُن کے جھرمٹ میں کسی بادشاہ کی طرح لگ رہا تھا۔ بالکل گول، روشن، حسین… وہ چاند پر نظریں جمائے اُسے دیکھتی رہی۔ مگر اُس کا ذہن وہیں اٹکا ہوا تھا۔ اُس خواب میں نظر آنے والے مرد پر اور اُس سانپ پر جسے اُس نے آج نانگن پایا تھا۔
”پاگل ہے تو موتیا… خوامخواہ فکر کرنے بیٹھ جاتی ہے۔ خواب ہے خواب… نہ دُنیا میں یہ مرد ہے نہ وہ سانپ… سوجاؤ۔”
اُس نے ہمیشہ کی طرح زیر لب اُس خواب کو بڑبڑاتے ہوئے جھٹلایا۔ پر آسمان پر نظر آنے والے اُس خوبصورت چاند پر یک دم جیسے اُسی مرد کا چہرہ اُبھرنے لگا تھا۔ اُس کی آنکھیں، ناک، مسکراتے ہوئے لب تھوڑی اُٹھی ہوئی ٹھوڑی لمبی گردن… وہ عجیب حیرت سے چاند میں اُبھرنے والی شباہت دیکھنے لگی پھر اُس نے ہاتھ اُٹھا کر چاند میں اُبھرنے والے اُس چہرے کو جیسے چھونے کی کوشش کی تھی، اور وہ چھوپائی تھی موتیا کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آئی تھی۔
اُس نے آنکھیں بند کرکے دوبارہ کھولیں چاند اب بھی وہ چہرہ بنے آسمان پر براجمان تھا اور تارے اُسے اپنے جھرمٹ میں لئے ہوئے تھے۔ وہ آنکھیں کھولے آسمان پر چاند کو دیکھتی رہی اُس چکور کی طرح جسے وہ اکثر رات کو اڑتے دیکھتی تھی۔
موتیا نے آسمان پر اُس چاند کو دیکھتے ہوئے کلمہ پڑھنا شروع کردیا۔ زیرِلب… ایک پھر دوسرا پھر تیسرا… چوتھا… پانچواں… چھٹا… پھر وہ ساری سورتیں جو اُس کو بچپن سے حفظ تھیں اور وہ آیات جو مسجد کے مولوی صاحب نے اُسے رٹوائی تھیں پھر وہ سارے اسم الٰہی جنہیں اُس نے اسمِ اعظم ڈھونڈنے کے لئے یاد کیا تھا۔ پھر وہ سارے اسمِ محمد ۖجو اُس نے اس لئے رٹے تھے کیونکہ اللہ کے نام کے ساتھ ہی نبی ۖ کا نام نہ آئے یہ کیسے ممکن تھا… اور یہ سب پڑھتے پڑھتے وہ نیند کی وادی میں اُترنے لگی تھی مگر وہ چہرہ اب بھی وہیں تھا ۔ اُس کے دل کے آسمان پر چاند بن کے بیٹھا ہوا … پر وہ نانگن… وہ نانگن کیوں آگئی تھی اُس کے اور اُس کے چاند کے بیچ۔



٭…٭…٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!