Blog

Dana-Pani-Ep-1

شکوراں نے اگلی صبح وہ گجرے تاجور کے بستر کے برابر پڑی میز پر دیکھے تھے اور اُس نے پلک جھپکتے میں اُنہیں پہچانا تھا۔
”یہ گجرے یہیں رہنے دینا چوہدری صاحب نے پہنائے تھے مجھے۔مرجھا بھی جائیں نا تو کوڑے میں مت پھینکنا کہیں مٹی میں دبا دینا۔”
اپنے گیلے بال سلجھاتے ہوئے تاجور نے شکوراں سے کہا تھا اور شکوراں ڈر کے مارے یہ نہیں کہہ سکی کہ وہ اللہ وسائی کے گجرے تھے۔ جی بی بی صاحبہ کہہ کر وہ بات گول کر گئی تھی۔ صبح سویرے اپنی شامت بلانے کا اُس کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔
”یہ پانی کتنا کھارا ہے۔” ناشتے پر تاجور نے پانی کا ایک گھونٹ بھرتے ہی چوہدری شجاع سے ناک بھوں چڑھا کر کہا تھا۔
”اچھا… نہیں مجھے تو ٹھیک ہی لگ رہا ہے۔ گھر کی کھوئی کا پانی ہے۔” شجاع نے اپنی حسین و جمیل بیوی کی چڑھی ہوئی ناک اور ماتھے کے بل دیکھے اور پانی کا ایک گھونٹ لے کر جیسے پانی چکھا۔ اُسے وہ ٹھیک ہی لگا تھا۔
”ہمارے گھر کا پانی بڑا میٹھا ہوتا ہے۔ میں بابا جان سے کہوں گی وہ بھجوادیا کریں۔” تاجور نے وہ پانی وہیں اُسی طرح گلاس میں چھوڑتے ہوئے کہا۔
”اتنا کھارا پانی تو میرے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔” شجاع اس کی بات پر ہنس پڑا تھا۔
”دس میل دور ہے تمہارا گاؤں… کیسے بھیجیں گے اور کتنا بھیجیں گے۔”
شجاع نے جیسے اُسے یاد دلایا۔
”وہ بھیج دیں گے میرے لئے روزانہ … ہر روز ایک بھائی بھی دینے آئے اُن سمیت تو آٹھ دن تو گھر کے لوگ ہی بھگتا دیں گے پھر ملازم وغیرہ آجائیں گے۔” شجاع نے لاڈ پیار اور نازو نعم کی اُس انتہا کے بارے میں سوچا تھا جس کی عادی اُس کی نئی نویلی دلہن تھی۔



”بیٹا اب گھر کے مرد پانی ڈھوتے اچھے تھوڑی لگتے ہیں۔ گاؤں کے کنویں کا پانی بڑا میٹھا ہوتا ہے میں گامو ماشکی سے کہوں گا وہ دے جایا کرے گا تمہارے لئے پانی۔”
چوہدری کرامت نے اُن کی گفتگو میں پہلی بار مداخلت کی ۔ تاجور کے ذہن میں گامو ماشکی کا نام گونجا تھا۔ اُس نے صرف چوہدری کرامت کو دیکھا اور کچھ کہا نہیں۔
پندرہ منٹ بعد گامو ماشکی حویلی پانی پہنچا گیا تھا اور تاجور ذہن بنائے بیٹھی تھی کہ وہ اس میں بھی نقص نکالے گی۔ مگر پہلا گھونٹ لیتے ہی تاجور کچھ بول نہیں سکی تھی۔ وہ ایسا ٹھنڈا میٹھا پانی تھا کہ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی غٹاغٹ پیتی چلی گئی۔ چوہدری کرامت اور شجاع نے مسکراتے ہوئے ایک دوسرے کو دیکھا تھا۔
”ہاں یہ کچھ بہتر ہے پر ہمارے گھر کے کنویں جیسا نہیں ہے۔” تاجور نے گلاس رکھتے ہوئے دوپتہ ٹھیک کرتے ہوئے کہا تھا۔ چوہدری کرامت ہنس پڑاتھا۔
”وہ پیر ابراہیم کے گھر کا پانی ہے اُس کا اور میرے گھر کے پانی کا کیا مقابلہ ۔ پر اب تم آگئی ہو تو میرے گھر کے کنویں کے پانی میں بھی وہی مٹھاس آجائے گی انشاء اللہ ۔” تاجور کچھ بول نہیں پائی ۔
چوہدری کرامت کی اس بات کے بعد گامو ماشکی کے لائے ہوئے پانی کا ذائقہ اُس دن تاجور کی زبان پر سارا دن رہا۔ وہ چوہدری کرامت کے سامنے یہ اعتراف نہیں کرسکی کہ گاؤں کے کنویں کا وہ پانی جو گامو ماشکی لایا تھا وہ پیر ابراہیم کے گھر کے پانی سے بھی میٹھا اور ٹھنڈا تھا۔



٭…٭…٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!