گندم کی ایک بوری کا منہ کھلا ہوا تھا اور اُس کے برابر میں گندم کی چند اور بوریاں بھی پڑی ہوئی تھیں تاجور برآمدے میں ایک اونچے موڑھے پر بڑے کروفر سے بیٹھی ہوئی تھی۔ اور اُس کے پاس شکوراں اور کچھ دوسری ملازمائیں تھیں۔ حویلی کے صحن میں عورتیں قطار بنائے کھڑی تھیں اور باری باری آگے آکر اس حویلی کی نئی بہو سے پہلی خیرات لے رہی تھیں۔ شکوراں برتن بھر بھر کے بوری سے دانے تاجور کو دیتی اور وہ عورتوں کی جھولی، چادر یا لائے ہوئے برتنوں میں اُنڈیل دیتی اور ساتھ اُن کی دعائیں لیتی اور بڑے کروفر سے اُن دعاؤں کا جواب بھی دیتی لیکن کسی کو آگے بڑھ کر خود کو چھونے نہ دیتی۔ اللہ وسائی بھی اُسی قطار میں کھڑی تھی جب اُس نے ایک بوڑھی عورت کو آگے بڑھ کرتاجور کے سر پر پیار دینے کی کوشش کرتے دیکھا اور تاجور کو بے حد بے زاری کے ساتھ اُس کا ہاتھ جھٹکتے دیکھا۔
”اس کی ضرورت نہیں ہے اماں۔” اُس کے کہنے پر شکوراں نے بڑی درشتگی سے اُس عورت کو پیچھے ہٹاتے ہوئے کہا۔
”پتہ نہیں لگتا تم لوگوں کو … کتنے گندے ہاتھ ہیں تمہارے اور بی بی صاحبہ کے سرپر پھیر کر اُن کے بال بھی گندے کروگی… پاکی پلیدی کا کچھ پتہ نہیں تجھے۔ وہ عورت کچھ خجل سی ہوگئی اور اُس نے ہاتھ اٹھا کر کہا۔
”اللہ بی بی اور چھوٹے صاحب کی جوڑی سلامت رکھے۔”
”ہاں ہاں ٹھیک ہے۔ اب دانے لے اور آگے چل۔” شکوراں نے کٹوری اُس تاجور کو پکڑاتے ہوئے اُس عورت کی چادر پھیلائی تھی اور تاجور نے کچھ کہے بغیر اُس میں دانے ڈال دیئے تھے۔
اللہ وسائی کے آنے سے پہلے ہی تاجور اُسے دیکھ چکی تھی اور تاجور کی نگاہ جہاں مرکوز ہوئی تھی یہ کیسے ممکن تھا کہ شکوراں تاجور کی نگاہ نہ پہچانتی ۔
”آؤ اللہ وسائی۔” تاجور نے خود اُسے نام لے کر پکارا تھا اور جیسے پورے گاؤں کی عورتوں کے سامنے لمحہ بھر کے لئے اللہ وسائی کا سیروں خون بڑھ گیا تھا۔ چوہدریوں کی بہو کو نہ صرف اُس کا چہرہ یاد تھا بلکہ نام بھی یاد تھا۔
”بابا جان کی دُعا سے دس سال بعد گودہری ہورہی ہے نا تمہاری۔” تاجور نے بلند آواز میں جیسے پورے گاؤں کے سامنے اعلان کرنے والے انداز میں کہا تھا۔ اللہ وسائی اُسی طرح ہاتھ جوڑے کھڑی رہی۔
”اسے دو کٹوری دینا… یہ تھتھی بھی تو ہے نا۔”
تاجور نے مسکراتے ہوئے شکوراں سے کہتے ہوئے اللہ وسائی کو دیکھا جس کا رنگ فق ہوا تھا اور وہاں کھڑی عورتوں کی پوری قطار نے بیک وقت قہقہہ لگایا تھا۔ تاجور نے پہلی بار وہاں کوئی مزاح کی بات کی تھی اور کسی کو ہنسی نہ بھی آرہی ہو تو بھی ہنسنا ضروری تھا۔ صرف جھولی پھیلائے ہوئے اللہ وسائی تھی جو شرم سے پانی پانی ہوگئی تھی۔ اُس سے اُس دن سرہی نہیں اٹھایا گیا تھا نہ اُس کی زبان سے کچھ نکلا تھا۔ وہ کچھ بولتی تو تھتھی کہلاتی اور سب اُس پر ہنستے۔
اللہ وسائی اُس دن سارا راستہ روتی آئی تھی۔
”میں نے آئندہ دانے لینے حویلی نہیں جانا گامو۔” اُس نے گھر آتے ہی گامو کو سب کچھ کہہ سنایا تھا۔ اُس کا بھی دل بُرا ہوا تھا۔ لیکن اُس نے اللہ وسائی سے کہا تھا۔
”تجھے کتنی بار کہا ہے ۔ وہ پیر صاحب کی بیٹی ہیں جن کے فیض سے ہمارا گھر آباد ہونے جارہا ہے۔ چوہدری صاحب کی بہو بہن جن کے گھر سے آنے والے دانے سے ہمارا چولہا جلتا ہے ۔ تو دل میلا نہ کیا کر نہ بُرا منایا کر اُن کی بات کا ۔ دیکھ نا انہوں نے سارے پنڈ کو چھوڑ کر صرف تیرے ساتھ مذاق کیا۔ ” گامو نے جیسے اُسے تسلی دینے کی کوشش کی تھی۔ پر اللہ وسائی اُس کی بات پر جیسے بلبلا اُٹھی تھی۔
”اس گاؤں میں آج تک کبھی کسی نے مجھے تھتھی نہیں کہا۔ کبھی کوئی مجھ پر نہیں ہنسا آج اُن کی وجہ سے گاؤں کی عورتیں ہنسی ہیں مجھ پر… کل وہ تھتھی تھتھی کہہ کر گلیوں میں بلائیں گی مجھے۔” اللہ وسائی پھر روپڑی تھی۔
”نہ رو اس طرح اللہ وسائی جانے دیں پیر صاحب کا احسان اتنا بڑا ہے کہ اُن کی بیٹی کو سات خون معاف ہیں… تو غصہ اور رونا چھوڑ… یہ دیکھ کیا لایا ہوں میں۔” گامو نے اس کا دل بہلاتے ہوئے ایک پوٹلی کھول کر اُس میں سے خوبصورت کپڑے نکالے تھے جو ایک ننھے بچے کے تھے ۔ اللہ وسائی یک دم رونا بھولی۔
”یہ کہاں سے لایا ہے تو؟”
”جہاں سے بھی لایا ہوں تو یہ دیکھ ہیں کتنے سوہنے جب ہماری دھی یہ پہنے گی تو شہزادی لگے گی بالکل۔”
”ہاں روپ والی شہزادی… میں کہتی ہوں تاجور بی بی جیسی سوہنی ہو اُن جیسا غرور نہ ہو اُس میں۔” اللہ وسائی نے بے اختیار کہا تھا۔ گامو مسکرا دیا تھا اللہ وسائی اب وہ ننھے ننھے رنگین کپڑے کھول کھول کر دیکھ رہی تھی۔
٭…٭…٭