گامو کی بھول تھی کہ اللہ وسائی سب بھول گئی تھی۔ وہ اُس دن کے بعد سے دوبارہ حویلی نہیں گئی تھی۔ تب بھی نہیں جب مہینے کے بعد ہی تاجور کے پاؤں بھاری ہونے کی خبرگاؤں میں پھیلی تھی اور چوہدری کرامت نے اناج کی بوریاں ایک بار پھر کھول دی تھیں۔ اُس نے تاجور کے لئے دعا کی تھی لیکن اُس کو جاکر ملی نہیں تھی اور تاجور کو بھی اُس کا خیال نہیں آیا تھا۔ وہ حویلی کی اگلی نسل کو دُنیا میں لانے میں اتنی مصروف تھی کہ اللہ وسائی کے ساتھ ساتھ گامو ماشکی بھی اُسے بھول گئے تھے۔
مراد ساتویں مہینے پیدا ہوا تھا اور پریشانی اُٹھانے کے باوجود وہ صحت مند تھا۔ اُس کی پیدائش پر حویلی میں کئی ہفتے جشن کا سماں تھا اور اُسی جشن میں کسی نے تاجور کو اللہ وسائی کے ہاں پیدا ہونے والی بیٹی کی خبر دی تھی۔
”بی بی صاحبہ گاؤں کی عورتیں کہہ رہی ہیں کہ اللہ وسائی کی دھی تو رنگ روپ میں آپ پر چلی گئی ہے۔ وہ تو اللہ وسائی کی دھی لگتی ہی نہیں۔” شکوراں نے اُس دن تاجور کے بالوں میں تیل ڈال کر مالش کرتے ہوئے جیسے اُس کو خنجر گھونپا تھا۔
”تجھے بات کرتے ہوئے لحاظ نہیں آتا کس کی اولاد کا رنگ روپ مجھ سے ملارہی ہے۔” تاجور خفا ہوئی تھی۔ شکوراں گڑبڑائی ۔
”نہیں نہیں بی بی صاحبہ میں نے کہاں سے دیکھنا ہے۔ آپ کہیں تو دیکھ کے آؤں؟”
شکوراں نے جھٹ تجسس سے کہا تھا۔
”ہاں جا دیکھ کر آ اور مبارکباد بھی دے آنا میری طرف سے۔” تاجور کو عجیب کرید ہوئی تھی اور شکوراں بے اختیار اس طرح خوش ہوئی جیسے اُس کی دلی مراد پوری ہوئی تھی۔
گاؤں کی عورتیں فضول میں بک بک نہیں کررہی تھیں۔ شکوراں اللہ وسائی کی بیٹی پر پہلی نظر ڈالتے ہی دنگ رہ گئی تھی۔ دودھ جیسی رنگت والی گلابی ہونٹوں والی وہ بچی ہرنی جیسی آنکھیں کھولے کسی غزل کی معصومیت سے شکوراں کو دیکھ کر مسکرائی تو شکوراں کا دل بے اختیار پیار سے پگھلا تھا اُسے وہ اپنی چھ مہینے کی بتول جیسی لگی تھی۔ پر بتول اور اُس میں ”روپ” کا فرق تھا۔
”یہ تو تیری بیٹی لگتی ہی نہیں۔” شکوراں اُسے گود میں لئے کہے بغیر نہیں رہ سکی تھی اور اللہ وسائی نے موتیا اُس سے جھپٹ لی تھی۔
”میری نہیں تو اور کس کی بیٹی ہوگی۔ چل جایہاں سے۔” وہ شکوراں سے خفا ہوگئی تھی جب سے موتیا اُس کی زندگی میں آئی تھی۔ اُسے کسی کی پروا نہیں رہی تھی۔ وہ اور گامو اب اب موتیا کے گرد طواف کرتے رہتے تھے۔
٭…٭…٭